میرے والد اسلحہ بنانے کا کام کرتے تھے

محمد قیصر چوہان
دس مارچ 1990ء کو سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے نواحی گائوں میں پیدا ہونے والے محمد عباس کا شمار پاکستان کے ٹاپ کلاس ٹیسٹ بالرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 7 فروری 2009ء کو سیالکوٹ ریجن کی طرف سے ایبٹ آباد کے خلاف اپنا فرسٹ کلاس ڈیبیو کیا۔ محمد عباس نے پختہ عزم، مضبوط ارادے، بلند حوصلے اور ہمت و جفا کشی کو ہتھیار بنا کر کرکٹ کے کھیل میں بطور فاسٹ بالر ہر سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی سوئنگ گیندوں کو اتنا ہی قاتلانہ تصور کیا جاتا ہے جس میں کبھی محمد آصف شہرت رکھتے تھے۔ عباس کیلئے نئی یا پرانی گیند کو سوئنگ کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ وہ عمدہ لائن و لینتھ، اچھی رفتار، ان اور آئوٹ سوئنگ گیند کے ساتھ مخالف بیٹسمینوں کو پریشان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس وقت محمد عباس نے ٹیسٹ کرکٹ میں 15.64 کی اوسط سے 59 وکٹیں حاصل کی ہیں اور وہ مجموعی طور پر انٹرنیشنل کرکٹ میں بہترین اوسط کے حامل کھلاڑیوں میں چوتھے نمبر پر موجود ہیں۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر موجود جارج لوہمین نے 1886ء سے1896ء کے دوران انگلینڈ کیلئے 18 ٹیسٹ میچز میں 10.75 کی اوسط سے 112 وکٹیں حاصل کیں۔ دوسرے نمبر پر براجمان جیمز فیرس نے 1887ء سے1892ء تک آسٹریلیا اور انگلینڈ کیلئے9 ٹیسٹ میچز میں 12.70 کی اوسط سے61 وکٹیں حاصل کیں۔ فہرست میں تیسرے نمبر پر قابض ولیم بارنز نے انگلینڈ کیلئے 1880ء سے1890ء کے دوران 21 ٹیسٹ میچز میں 15.54 کی اوسط سے 51 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ جبکہ چوتھے نمبر پر موجود محمدعباس نے اب تک 14 ٹیسٹ میچوں میں 66 بیٹسمینوں کو آئوٹ کرکے دُنیا بھر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کیا۔ گزشتہ دنوں نمائندہ ’’اُمت‘‘ نے محمد عباس سے ایک ملاقات کی، جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
’’میرا تعلق ضلع سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے نواح میں واقع ایک گائوں جیٹھی کے (Jathekey) کی مغل برادری سے ہے۔ والد کا نام محمد الیاس مغل اور والدہ کا نام طاہرہ ہے۔ ہم چھ بہن بھائی ہیں۔ دو بہنیں اور چار بھائی۔ میں پہلے نمبر پر ہوں۔ میرے بعد محمد وقاص، پھر بہنیں یاسمین اور ماہ جبین ہیں۔ اس کے بعد بھائی فرمان اور فرحان ہیں۔ میں اور وقاص سمیت دونوں بہنیں شادی شدہ ہیں۔ میری شادی اپریل 2015 میں ہوئی۔ اہلیہ کا نام نیلم ہے، جبکہ بیٹی کا نام عائشہ صدیقہ ہے۔ میرے والد محترم آزاد کشمیر کے علاقے میرپور میں اسلحہ بنانے کا کام کرتے تھے۔ بعد میں وہ سیالکوٹ میں بھی اسی کام سے منسلک رہے۔ کرکٹ کے کھیل سے مجھے بچپن سے ہی دیوانگی کی حد تک لگائو ہے۔ میں نے بارہ سال کی عمر میں ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز سے کیا۔ بچپن میں گائوں کے دیگر ہم عمر بچوں کے ساتھ مل کر وقت گزارنے کیلئے ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ گائوں کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھائی کے دوران کرکٹ کھیل بھی عروج پر تھا۔ بچپن سے ہی کرکٹ کا دیوانہ ضرور تھا، لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلنے کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ کیونکہ مجھے تو کرکٹ کی گیند (ہارڈ بال) سے کھیلنا پسند نہیں تھا۔ پھر چند دوستوں نے ہارڈ بال میں قسمت آزمائی کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد میں نے سیالکوٹ کا مشہور وی آئی پی کرکٹ کلب جوائن کرلیا۔ یوں میں نے ہارڈ بال سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک نے مجھے ہر موقع پر سپورٹ کیا ہے۔ اس دور میں مجھے اپنے شوق کی تکمیل کیلئے بڑی سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ گھر کے معاشی حالات اچھے نہ ہونے کے باوجود والدین نے مجھے کبھی کرکٹ کھیلنے سے نہیں روکا۔ میں نے پڑھائی ترک کرکے ویلڈنگ کی۔ گرمی میں میری جلد اور آنکھیں خراب ہونا شروع ہوگئیں، جس کے سبب میں نے ویلڈنگ کا کام چھوڑ دیا۔ اس کے بعد میں نے شادی کی تقریبات میں ویٹری کی۔ پھر سہواڑی نہر پر ایک چمڑے کی فیکٹری میں تین مہینے تک مزدوری کی۔ سمبڑیال ڈرائی پورٹ کے قریب ایک PCO پر ملازمت کرنا شروع کر دی، لیکن ایک ماہ بعد ہی یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ پھر میں نے سیالکوٹ کچہری میں پراپرٹی رجسٹری کا کام کرنے والی ایک لاء فرم میں ہیلپر کی نوکری کی اور 2 سال تک یہ کام کیا۔ میرے لئے فیملی کی کفالت کرنا اور ساتھ میں کرکٹ کھیلنا بہت ہی مشکل ہوتا جارہا تھا۔ ٹائم نہ ملنے کی وجہ سے میں کلب جا کر بالنگ کی پریکٹس نہیں کر پا رہا تھا۔ ان دنوں کرکٹ کھیلنے پر اور میری خوراک پر روزانہ چار سو روپے خرچ ہو تے تھے۔ تو میں نے سوچا کہ یہ پیسے بھی بچا کر گھر میں والدین کو دیئے جائیں، تاکہ گھر کی دال روٹی چلے۔ یوں کچھ عرصہ تک میں نے اپنی پریکٹس کے سلسلے کو ترک کردیا۔ لیکن اس عرصہ میں کلب میچز باقاعدگی کے ساتھ کھیلتا رہا۔ میں نے گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کیلئے روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جانے کا بھی ارادہ کیا، لیکن لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ 2008ء میں گھر گر گیا تھا، جو میں نے میچ فیسوں سے ملنے والے پیسوں سے دوبارہ تعمیر کرایا۔ لیکن اپنے ارادوں میں ثابت قدم رہا۔ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ معروف فاسٹ بالر محمد آصف کے ساتھ سیالکوٹ ریجن کی جانب سے دو برس تک ساتھ کھیلنا تھا۔ اس دوران آصف بھائی نے مجھے سوئنگ کو کنٹرول اور گُڈ لائن پر بالنگ کرنے کے فن سے آشنا کیا۔ محمد آصف نے مجھے فاسٹ بالنگ کے ’’گر‘‘ بتائے اور مجھے بلے بازوں کو پھنسا کر کھلانے کے متعلق مفید باتوں سے آگاہ کیا۔ ان کے علاوہ بالنگ کوچ اظہر محمود نے بھی میری بالنگ کو نکھارنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ جب ڈسٹرکٹ انڈر 19 کیلئے میرا نام سیالکوٹ ریجن کی ٹیم میں آیا تو آصف بھائی کے سکھائے گر ہی میرے کام آئے۔ جب میں نے 2008-09ء میںسیالکوٹ ریجن کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کیلئے ٹرائلز دیئے تو ٹیم میں مجھے کھلانے پر کپتان اور ٹیم مینجمنٹ میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ اس موقع پر ہمارے ریجن کے صدر نے کہا کہ ٹاس کرکے عباس کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گیا۔ یوں میچ سے ایک دن قبل رات کو ٹاس ہوا تو خوش قسمتی سے فیصلہ میرے حق میں ہوا۔ میں نے اس میچ میں پانچ کھلاڑیوں کو آئوٹ کر کے اپنی سلیکشن کو درست ثابت کیا۔ اس کے بعد میرا نام سیالکوٹ ریجن کرکٹ اکیڈمی میں آیا۔ میں نے اکیڈمی میں تربیت کے دوران پروفیشنل کرکٹ کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ اس کے بعد ریجنل انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرکے ٹاپ کیا۔ لیکن اس کے باوجود مجھے پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ میں نے مایوس ہونے کی بجائے اپنی محنت اور ٹریننگ کو مزید سخت کر دیا۔ اس کے بعد میں نے 2011-12ء کے فرسٹ کلاس سیزن میں سیالکوٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے 40 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ لیکن اگلے سیزن میں سیالکوٹ کی ٹیم نے مجھے صرف چار میچز کھیلنے کا موقع دیا۔ 2014-15ء کا سیزن میرے لئے یادگار ثابت ہوا۔ اس میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے محض 21.81 کی اوسط سے 38 وکٹیں لیں۔ دو مرتبہ میچ میں دس وکٹوں کا کارنامہ بھی سر انجام دیا۔ اسی عمدہ پرفارمنس نے مجھے کے آر ایل کی ٹیم میں جگہ دلوائی، جس کیلئے کھیلتے ہوئے میں نے قائد اعظم ٹرافی کے کوالیفائنگ رائونڈ میں دو مرتبہ پانچ اور میچ میں ایک مرتبہ دس وکٹوں کی پرفارمنس کے ساتھ 26 وکٹیں حاصل کیں اور اپنی ٹیم کو فرسٹ کلاس کرکٹ تک پہنچایا۔ میں نے 2015-16ء کے ڈومیسٹک سیزن میں 61 وکٹیں اور 2016-17ء کے فرسٹ کلاس سیزن میں 71 وکٹیں حاصل کرکے ٹاپ کیا۔ میں نے جو محنت کی تھی، اس کا پھل مجھے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی صورت میں عطا کیا۔ پاکستانی ٹیم میں نام آنے کی خوشی مجھے ہی نہیں، بلکہ پوری فیملی کو تھی۔ اہلیہ اور والدین بہت زیادہ خوش تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ تمہاری محنت رنگ لے آئی۔ میں نے اپنے اولین ٹیسٹ میچ میں اپنے پہلے ہی اوور کی دوسری گیند پر ویسٹ انڈیز کے بلے باز براتھ ویٹ کوآئوٹ کرکے اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی قابلیت منوانے کے بعد اب میری تمام توجہ پاکستانی ورلڈکپ اسکواڈ کا حصہ بننے پر ہے۔ دورہ جنوبی افریقہ میں مجھے فٹنس مسائل کا سامنا رہا، لیکن اب مکمل طور پر فٹ ہوں۔ پی ایس ایل کھیلنا میری خواہش ہے۔ لیکن ابھی اس فارمیٹ میں کھیلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میں ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں اپنی کلاس ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ مستقبل میں بھی کائونٹی کرکٹ سے وابستہ رہوں گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment