سرفروش

عباس ثاقب
میں بخوبی اندازہ کرسکتا تھا کہ اس دوران ڈاکٹر چوہان گہری نظروں سے میرا جائزہ لیتا رہا ہے۔ مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی اس نے میرا پنجہ مضبوطی سے تھام کر شاید میرا دم خم جانچنے کی کوشش کی تھی۔ اسے یقیناً مایوسی نہیں ہوئی ہوگی۔
ڈاکٹر چوہان امر دیپ سے ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے تیزی سے ایک طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ ان کی باتوں سے مجھے پتا چلا کہ نہرو سرکار کی طرف سے مسلسل وعدہ خلافیوں پر احتجاجاً بائیس روز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے سنت فتح سنگھ نامی کوئی سکھ رہنما نے گزشتہ دنوں ماسٹر تارا سنگھ کی منت سماجت پر بالآخر مالٹے کا رس پی کر اپنا مون برت ختم کر دیا تھا۔ ڈاکٹر چوہان اسی سنت فتح سنگھ کو مبارک باد دینے اور خیریت پوچھنے یہاں آیا تھا۔
ڈاکٹر چوہان نے بتایا۔ ’’ماسٹر تارا سنگھ کی اپیل تو شاید سنت جی نہ مانتے۔ لیکن اکالی دل کی ورکنگ کمیٹی کے پانچوں منتخب ارکان یعنی پنج پیاروں نے بھی زور دیا تھا، اس لیے سنت جی نے آخرکار منگل کو گرنتھی چیت سنگھ جی کے ہاتھوں بھوک ہڑتال ختم کر دی‘‘۔
ڈاکٹر چوہان شاید میرے خیال سے خاصے صاف ستھرے لہجے میں ہندی بول رہا تھا۔ لیکن امر دیپ نے بتایا کہ میں کشمیری ہونے کے باوجود پنجابی کافی حد تک بول اور سمجھ لیتا ہوں تو وہ اپنی مادری زبان میں بات کرنے لگا۔ ’’لیکن میں ماسٹر تارا سنگھ اور سنت فتح سنگھ کی اس جدوجہد کو فضول سمجھتا ہوں۔ ماسٹر جی چاہے نہرو سرکار کے قدموں میں گر کر پنجاب صوبے کی ڈیمانڈ سے بھی دستبردار ہو جائیں، ہندوئوں کی سکھوں سے نفرت اور دشمنی ختم نہیں ہو سکتی‘‘۔
بالآخر ہم تالاب کا آدھا چکر لگاکر ہرمندر صاحب کے لگ بھگ عقب میں واقع ایک دو منزلہ عمارت کے بند دروازے پر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر چوہان نے بھاری بھرکم دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اس نے دوسری بار دروازہ کھٹکھٹایا۔ چند لمحوں بعد ایک بھاری مردانہ آواز نے پوچھا۔ ’’کون؟‘‘۔
ڈاکٹر چوہان نے اپنا نام بتایا۔ اس کے ساتھ ہی دروازہ کھلتا چلا گیا اور لگ بھگ ساڑھے چھ فٹ لمبے قد اور ڈھائی تین من وزن کا ایک سکھ نوجوان دروازہ گھیرے کھڑا نظر آیا۔ ڈاکٹر چوہان پر نظر پڑتے ہی اس کی گھنی مونچھوں کے نیچے مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ڈاکٹر چوہان نے اسے گرم جوشی سے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا حال ہے میرے شیر؟ سب ٹھیک تو ہے ناں؟‘‘۔
دروازہ کھولنے والے گینڈے نما شیر نے امر دیپ اور مجھ سے بھی گلے ملنا ضروری سمجھا۔ اس دوران اس نے ڈاکٹر چوہان سے گفتگو جاری رکھی۔ ’’سب ٹھیک ہے ڈاکٹر جی۔ میں بھی چنگا بھلا ہوں‘‘۔
ڈاکٹر چوہان نے اس کے پیچھے پیچھے عمارت میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’شیر دل سنگھ، اور کون کون ہے کچھار میں؟ سکھبیر آگیا روپ نگر سے؟‘‘۔
شیر دل نے زور زور سے سر ہلایا۔ ’’ہاں جی، کل رات ہی واپس آیا ہے‘‘۔
اس اثنا میں ہم ایک نیم تاریک سے کمرے میں پہنچ گئے۔ وہاں فرنیچر کے نام پر صرف تین چارپائیاں بچھی دکھائی دیں۔ البتہ ایک چارپائی کے ساتھ دیوار کے سہارے کھڑی ایک تھری ناٹ تھری رائفل نے فوراً میری توجہ مبذول کرالی۔ تبھی چارپائی پر لیٹے ایک شخص نے رضائی ہٹاکر بیٹھتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ اس نے ڈاکٹر چوہان کو پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ اس کے ساتھ ہی وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا اور ڈاکٹر چوہان سے لپٹ گیا۔ وہ ایک دوسرے کو تہنیتی القاب سے نواز رہے تھے۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہی سکھبیر سنگھ ہے۔
ڈاکٹر چوہان سے فارغ ہوکر وہ ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا، تاہم اس نے محض مصافحہ کرنے پر اکتفا کیا۔ پھر اس کی نظریں امر دیپ کا سرسری جائزہ لینے کے بعد میرے چہرے پر جم گئیں۔ جانے کیوں مجھے لگا کہ اسے میری شکل اچھی نہیں لگی ہے۔ اسے میری طرف متوجہ پاکر ڈاکٹر چوہان نے ہم دونوں کا تعارف کرانا مناسب سمجھا۔ ’’سکھبیر، یہ میرے عزیز دوست امر دیپ سنگھ ہیں۔ سنگرور کے چھاجلی پنڈ کے بڑے زمیندار ہیں۔ ہمارے مشن میں بھرپور تعاون کرتے رہتے ہیں۔ بہت ہی……‘‘۔
سکھبیر نے اسے اپنی بات مکمل نہ کرنے دی اور آنکھ سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’ان کا بتاؤ ڈاکٹر جی، یہ کون سی مہان ہستی ہیں، جنہیں آپ یہاں تک لے آئے ہیں؟‘‘۔
اس کے لہجے میں شک اور طنز کی ملی جلی چبھن محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر چوہان نے کہا۔ ’’فکر نہ کرو سکھبیر۔ یہ بھی اپنے ہی بندے ہیں۔ ابھی سب تفصیل سے بتاتا ہوں ان کے بارے میں۔ ان کا نام ذاکر ہے اور یہ اپنے امر دیپ سنگھ جی کے قریبی دوست ہیں‘‘۔
میرا نام سنتے ہی سکھبیر کو جیسے بجلی کے ننگے تار نے چھو لیا۔ اس نے آنکھیں خیرہ کر دینے والی پھرتی سے اپنے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور سیاہ رنگ کا ایک پستول نکال کر اس کی نال کا رخ عین میری چھاتی کی طرف کر دیا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی ردِ عمل ظاہر کر پاتا، اس نے پستول کا چیمبر کھینچ کر گولی نال میں چڑھا دی۔ اب صرف ٹریگر دبانے کی دیر تھی۔ اس کا پستول تھامنے کا انداز بتا رہا تھا کہ اس کا نشانہ خطا ہونے کی توقع رکھنا میری آخری غلطی ثابت ہوگی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment