عمران خان
ایف آئی اے اور کسٹم پریونٹو کراچی کے افسران ڈی ٹی ایچ ڈیوائس مافیا کیخلاف کارروائیوں میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔ ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کے ذریعے پاکستان سے بھارت میں منی لانڈرنگ کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو گیا ہے۔ کراچی میں صدر الیکٹرونکس مارکیٹ کے ڈیلروں نے بھارتی ٹی وی چینل چلانے والی ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کے کارڈز ایک بار پھر بڑی تعداد میں شہریوں کو سپلائی کرنے شروع کردیئے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ایف آئی ار کسٹم حکام کو ڈی ٹی ایچ مافیا کے خلاف کریک ڈائون کیلئے خصوصی احکامات جاری کئے گئے تھے جن میں ان دونوں اداروں کو پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی معاونت کرنے کی ہدایات دی گئی تھی تاکہ غیر قانونی طور پر بھارتی ٹی وی چینل چلانے والی مافیا کیخلاف کامیاب آپریشن کرکے پاکستان سے اربوں روپے کا منافع بھارتی کمپنیوں کو منتقل ہونے کا سلسلہ روکا جاسکے۔ تاہم ایف آئی اے کسٹم حکام نے کراچی میں ابتدائی کارروائیوں کے بعد یہ سلسلہ روک دیا اور اب صرف میٹنگز ہی کی جا رہی ہیں۔ جبکہ عملی طور پر مافیا کیخلاف کارروائیاں نہ ہونے سے ایک بار پھر ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کے کارڈز فروخت ہونا شروع ہوگئے ہیں، جن سے ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کو چارج کرکے کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں بھارتی ٹی وی چینلز کی نشریات چلائی جا رہی ہیں۔
کسٹم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کسٹم پریونٹو کے افسران جن میں ڈپٹی کلکٹر حمیر خان اور ڈپٹی کلکٹر فیصل کے علاوہ ایڈیشنل کلکٹر عامر تھہیم شامل ہیں، ابھی تک ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کو چارج کرنے کیلئے استعمال ہونے والے کارڈز کے حوالے سے کوئی بھی حکمت عملی نہیں بناسکے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کی اسمگلنگ تک محدود رہی۔ تاہم اس کیخلاف بھی ان کی اور ان کی ٹیموں کی کارروائیاں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔ گزشتہ دو مہینوں میں اس ٹیم نے ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کی اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف ایک بھی کارروائی نہیں کی ہے۔ ذرائع کے بقول سپریم کورٹ میں ’’گرے ٹریفک‘‘ کیس میں ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات میں اس کو انتہائی سنگین معاملہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ ایک جانب اس کے نتیجے میں ملک میں بھارتی پروپیگنڈا پھیلانے میں مدد مل رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان سے اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے بھارتی کمپنیوں کو منافع مل رہا ہے جس سے پاکستانی معیشت کو نقصان اور بھارت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
اسلام آباد سے موصول ہونے والی ہدایات میں کراچی میں حکام کو واضح طور پر آگاہ کیا گیا تھا کہ کراچی کی مرکزی الیکٹرونک مارکیٹ میں ملک کے سب سے بڑے ڈیلر موجود ہیں، جو ملک بھر میں ڈی ٹی ایچ ڈیوائس کے کارڈز سپلائی کر رہے ہیں۔ تاہم اس کے باجود کراچی میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کے حکام اور کسٹم پریونٹو کے افسران کے درمیان بننے والی مشترکہ ٹیم نے اس آپریشن میں سب سے اہم نقطے کو نظر انداز کیا اور انتہائی بھونڈے انداز میں کارروائی کا آغاز کیا۔ ان افسران نے صرف ڈیوائس فروخت کرنے والے ڈیلرز کے بارے میں معلومات حاصل کیں لیکن کارڈز فروخت کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا۔ جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ احکامات میں واضح طور پر لکھا ہے کہ مافیا کیخلاف کارروائیاں کیلئے ایسے مقدمات قائم کئے جائیں جن میں ملزمان کے زیر استعمال بینک اکائونٹس کی تفصیلات بھی شامل ہوں اور اس ضمن میں اسٹیٹ بینک سے مدد لی جائے۔ اسٹیٹ بینک حکام نے عنایت حسین نامی ایک اعلیٰ افسر کو اس آپریشن میں ایف آئی اے کی معاونت کیلئے تعینات کر رکھا ہے، اس کا مقصد یہ تھا کہ ڈی ٹی ایچ ڈیوائس اور کارڈز کا کاروبارکرنے والوں کے بینک اکائونٹس اور منی ٹریل کے ذریعے ان کے مالی لین دین دبئی میں موجود حوالہ ہنڈی مافیا سے ثابت کئے جاسکیں جس کے ذریعے پاکستان سے اربوں روپے دبئی سے بھارتی کمپنیوں کو منتقل کئے جاتے ہیں تاکہ ڈی ٹی ایچ ڈیوائس مافیا کیخلاف نہ صرف اسمگلنگ کے کیس بن سکیں، بلکہ منی لانڈرنگ کے مقدمات بھی بنائے جاسکیں۔ یہ احکامات گزشتہ برس اکتوبر میں دیئے گئے تھے جن پر تین ماہ قبل تک ایف آئی اے اور کسٹم پریونٹو کے افسران نے 3 مشترکہ کارروائیاں کیں جس میں صدر الیکٹرنک مارکیٹ، کورنگی صنعتی ایریا گودام پر چھاپہ مارا گیا اور 8 ہزار کے قریب ڈی ٹی ایچ ڈیوائس اور ان کے دیگر آلات بر آمد کئے گئے جو اسمگل کرکے لائے گئے تھے۔ تاہم اس کے بعد گزشتہ چار مہینوں سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی مافیا کے کسی رکن کے حوالے سے تحقیقات میں اسٹیٹ بینک کے نمائندے سے بینک اکائونٹس کی معلومات حاصل کی گئی ہیں۔
’’امت‘‘ کو اس آپریشنکے فیلڈ انچارج کی حیثیت سے نامزد ہونے والے سپرٹنڈنٹ اے ایس او کسٹم پریونٹو خالد تبسم نے بتایا کہ ڈی ٹی ایچ ڈیوائس اسمگل کرنے والوں کیخلاف کسٹم نے احکامات آنے کے بعد کارروائیاں کی تھیں، جس کے بعد یہ سرگرمیاں کم ہوئیں تاہم کارڈز چونکہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص سینکڑوں کارڈز اپنے پاکٹس میں رکھ کر بھی دوسری جگہ منتقل کرسکتا اور فروخت کرسکتا ہے۔ اس لئے مافیا کیخلاف کارروائی مشکل ہے۔ تاہم اس کے باوجود ایف آئی اے اور کسٹم افسران کو اس صورتحال کا ادراک ہے اور اس کیلئے کوئی حکمت عملی بنانے سے متعلق میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے۔ اب سے تین روز بعد بھی ایسی ہی ایک میٹنگ طے ہے جس میں اس پر بات کی جائے گی۔
اب تک ایف آئی اے اور کسٹم حکام نے جو برائے نام کارروائیاں کی ہیں اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ اکتوبر کے مہینے میں کسٹم پریونٹیو اے ایس او کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر کورنگی کے علاقے میں قائم ایک گودام پر چھاپہ مارا جہاں سے ہزار ایل ایم بی ڈیوائسز اور 1800سے زائد ڈی ٹی ایچ بر آمد ہوئیں، جن کی مالیت کروڑوں روپے ہے اور یہ سامان اسمگل کرکے کراچی لایا گیا تھا۔ یہ کھیپ مغل انٹر پرائزرز نامی کمپنی کی تھی جس کیخلاف اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تاہم اس کیس میں بھی کئی ملزمان ابھی تک کسٹم کے ہاتھ نہیں آسکے۔ ایک اور کارروائی میں کسٹم حکام اور ایف آئی اے کی ٹیموں کی نااہلی اور عجلت کے نتیجے میں کراچی الیکٹرونکس مارکیٹ میں چھاپے ناکام ثابت ہوئے۔ جب یہ ٹیمیں صدر مارکیٹ میں پہنچیں اس وقت تک دکانداروں نے تمام ڈیوائسز چھپا لی تھیں اور ٹیموں کو صدر مارکیٹ سے ایک بھی ڈیوائس نہیں ملی۔ حالانکہ عام دنوں میں ان دکانوں پر ہر وقت ہزاروں کی تعداد میں ڈی ٹی ایچ ڈیوائسز فروخت کیلئے موجود رہتی ہیں۔
٭٭٭٭٭