احمد خلیل جازم
سرگودھا کی تحصیل بھیرہ میں یوں تو دیگر تاریخی مساجد موجود ہیں۔ لیکن جامع مسجد بھیرہ اس حوالے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ مغلیہ طرز کی بنی ہوئی اس مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے سلطان الہند شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا۔ یہ مسجد ایک نادر شاہکار کے طور پر آج بھی مسلمانوںکی سطوت کی امین سمجھی جاتی ہے۔ چونکہ اس مسجد کی تعمیر کو شیر شاہ سوری سے منسوب کیا جاتا ہے، اس لیے اسے ’’شیر شاہی مسجد بھیرہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بھیرہ کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 447 قبل مسیح یہاں راجا برہت کی حکومت تھی، اور جنگ و جدل کا میدان اکثر اسی علاقے میں سجایا جاتا تھا۔ بھیرہ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں سکندر آیا تو یہاں کے راجہ نے اس کی اطاعت قبول کر لی۔ لہٰذا، اس وقت یہ شہر جنگ کی تباہ حالی سے محفوظ رہا۔ مورخین کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ بھیرہ کی بنیاد شیر شاہ سوری نے رکھی۔ بھیرہ شہر دریائے جہلم کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ شیر شاہ سوری نے بھیرہ میں کیوں قیام کیا، یا کتنا عرصہ قیام کیا، اس سے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ یہاں دو مساجد کو شیر شاہ سوری سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جبکہ ایک تاریخی مسجد کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ اکبر اعظم کے دور میں تعمیر ہوئی۔ شیر شاہی مسجد کو بھیرہ کی شان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کی تعمیر کا زمانہ1540ء سے 1545ء کے درمیان بیان کیا جاتا ہے۔ مسجد کے بارے میں تاریخی کتب میں بہت کم حوالہ جات موجود ہیں۔ خطیب جامع مسجد بھیرہ ابرار بگوی کا کہنا ہے کہ ’’امپیریل گزیٹیر آف انڈیا حصہ سوم میں ایک حوالہ ملتا ہے، جس کے مطابق اس مسجد کی تعمیرکا عرصہ 1540ء کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک بزرگ کے مقبرے کا ذکر بھی موجود ہے۔ لیکن اس مقبرے کا آج کہیں بھی وجود نہیں ہے۔ اسی طرح جیمز ولسن پنجاب گزیٹیر میں لکھتا ہے کہ ضلع بھر میں سب سے شاندار مسجد بھیرہ میں ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے 947 ہجری میں دہلی کے سلطان شیر شاہ سوری نے تعمیر کیا تھا‘‘۔
جامع مسجد بھیرہ کیا واقعی شیر شاہ سوری نے تعمیر کرائی تھی، اس بارے میں بعد میں تحقیق کرنے والے مختلف باتیں بیان کرتے ہیں۔ جبکہ بھیرہ شہر کے مکین اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ مسجد سلطان الہند شیر شاہ سوری نے تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ’’یہ مسجد عہد مغلیہ کی تین گنبدی مساجد جیسے شاہی مسجد دہلی، شاہی مسجد لاہور اور شاہی مسجد آگرہ کی پیش رو ہے‘‘۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ مسجد مغلیہ طرز تعمیر سے زیادہ پٹھانوں کے طرز تعمیر پر بنائی گئی ہے، کیونکہ اس کے تین گنبد تو شاہی مسجدوں والے ہیں، لیکن ان گنبدوں کے دائیں بائیں مینار ویسے نہیں ہیں۔ مسجد کا بیرونی حصہ اور دروازہ اس قدر پرشکوہ ہے کہ انسان اسی کو دیکھتا رہ جاتا ہے۔ بیرونی دروازہ گیٹ نما ہے، جسے 1937ء میں تعمیر کیا گیا۔ اسے بند کیا جائے تو اس کے اندر ایک اور چھوٹا دروازہ نمودار ہوتا ہے۔ یعنی عام حالات میں چھوٹا دروازہ استعمال ہو سکتا ہے۔ جبکہ اجتماعات کے لیے بڑا دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔ اب ہمہ وقت بڑا دروازہ ہی کھلا رہتا ہے، کیونکہ مسجد سے ملحق مدرسہ کے طالب علموں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بیرونی دروازہ دو چھوٹے میناروں کے عین وسط میں موجود ہے۔ جبکہ مسجد کے بیرونی دروازے کے ساتھ دیگر کمرے بھی تعمیر کیے گئے ہیں، جو دو منزلہ ہیں۔ دروازے کے اوپر ایک جھروکا موجود ہے، جبکہ اوپر کمروں کی کھڑکیاں بھی اسی سمت رکھی گئیں ہیں۔ سامنے بیرونی دروازے کے ساتھ نیچے چار دروازے اور دوسری منزل پر اسی سمت چار کھڑکیاں موجود ہیں۔ اندر داخل ہوں تو بائیں جانب پہلا کمرہ یہاں سے شائع ہونے والے قدیم رسالے ’’جریدہ شمس الاسلام‘‘ کے دفتر کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ دائیں طرف مسجد کے خطیب کا مہمان خانہ نما آفس ہے۔ بائیں جانب دوسرا کمرہ ایک چھوٹا سا میوزیم ہے، جس میں بھیرہ کی تاریخ سے متعلق اشیا شیشے کے ریک میں رکھی گئی ہیں۔ جبکہ دائیں طرف دوسرا کمرہ بھی مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مسجد کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہونے والے کی سب سے پہلے نگاہ مسجد کے اندرونی صحن اور مسجد کے تین گنبدوں پر پڑتی ہے۔ بعد ازاں دھیان دائیں بائیں ان کمروں کی جانب مبذول ہوتا ہے۔ ان کمروں میں شامل میوزیم میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ’’امت‘‘ ٹیم ابھی بیرونی کمروں کے درمیان پہنچی تھی کہ خطیب جامع مسجد صاحبزادہ ابرار احمد بگوی پہنچ گئے اور مسجد کے متعلق معلومات دینی شروع کر دیں۔ جامع مسجد بھیرہ کے خطیب صاحبزادہ ابرار احمد بگوی کا کہنا تھا… ’’لگ بھگ 250 برسوں سے مسجد کی خدمت ہمارے اجداد کے حصے میں آئی ہوئی ہے۔ اب اسی نسل میں سے مجھے پروردگار نے اس کی خدمت پر مامور کیا ہے۔ لاہور کی بادشاہی عالمگیری مسجد 1856ء میں واگزار کرائی گئی اور اس کے پہلے امام و خطیب کے طور پر حضرت علامہ قاضی احمد الدین بگوی مقرر ہوئے۔ جب آپ اپنے آبائی علاقے تشریف لائے تو بھیرہ میں موجود شیر شاہی مسجد کی واگزاری کے لیے تگ و دو شروع کر دی اور حکومت کو اس کے لیے درخواست گزار دی۔ چنانچہ 1859ء میں جامع مسجد بھیرہ واگزار ہوئی‘‘۔ اس مسجد پر اس وقت کیا کسی کا قبضہ تھا، جسے واگزار کرایا گیا؟ تو اس پر صاحبزادہ ابرار کا کہنا تھا کہ ’’یہ وہ دور تھا، جب پنجاب پر سکھوں کی حکمرانی تھی اور مسجد انہی کے زیر تسلط تھی۔ دراصل 1799ء میں پنجاب پر رنجیت سنگھ کا قبضہ ہوا۔ بھیرہ چونکہ قدیم شہر تھا، اس لیے یہ شہر بھی اس کی راجدھانی کا حصہ کہلانے لگا۔ سکھوں نے اس شہر کو خوب لوٹا اور قتل عام کیا۔ جامع مسجد کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس کی عمارت کو بھی نقصان پہنچایا گیا، حتیٰ کہ مسجد کی مرکزی عمارت کا ایک بڑا حصہ بھی گرا دیا گیا۔ 1849ء میں جب سکھوں کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی تو پنجاب انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ ابتدا میں اس شہر کی مرکزی اہمیت کے پیش نظر انگریزوں نے علاقائی انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر بھیرہ کو ہی بنایا۔ اسی دور میں مسجد کی واگزاری کی درخواست دی گئی، جو قبول ہوئی‘‘۔
جامع مسجد بھیرہ ان دنوں تزئین و آرائش کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اس قدیم مسجد کا صحن 1992ء میں آنے والے سیلاب کے بعد جن اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا، انہیں اکھاڑ کر اسے ٹائیلوں سے مزین کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اس کے گنبدوں پر پینٹ کیا جا رہا ہے اور مسجد کا اندرونی حصہ بھی رنگ و روغن کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے مسجد سے متصل میوزیم دکھایا گیا۔ یہاںاہل بھیرہ کے زیر استعمال قدیم برتن رکھے گئے تھے، جن پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ ایک پرانے دور کی آٹا پیسنے والی ہاتھ کی چکی بھی موجود تھی۔ کھڈی کی بنی ہوئی شال اور رنگ برنگی چنگیریں بھی رکھی گئی تھیں۔ یہاں پر مسجد کی تعمیر میں استعمال ہونے والا ابتدائی مٹیریل بھی موجود تھا، جن میں قدیم پتھر اور چھوٹی اینٹ موجود تھی۔ بھیرہ شہر میں آج بھی اسی چھوٹی اینٹ سے تعمیر کردہ قدیم عمارتیں موجود ہیں، جو اپنی خستہ حالی کے باوجود قائم ہیں۔ اور حیران کن امر تو یہ ہے کہ وہاں لوگ بھی رہائش پذیر ہیں۔ بہرحال اس میوزیم میں ان چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک قدیم صندوق بھی موجود تھا۔ یہ صندوق بگوی خاندان کے اجداد اپنے استعمال میں لاتے تھے۔ صندوق آج بھی خاصہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ قدیم بڑے تالے اور روشنی کے لیے استعمال میںلائے جانے والے پرانے لیمپوں سمیت یہاں وہ ہتھیار بھی رکھے گئے تھے، جو پہلے وقتوں میں استعمال ہوتے تھے۔ غرض اس چھوٹے سے کمرے میں بھیرہ کی قدیم ثقافت کو محفوظ کرنے کا پورا انتظام کیا گیا تھا۔ صاحبزادہ ابرار کا بتانا تھا کہ ’’یہ میوزیم قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اہل علاقہ اپنی ثقافت سے جڑے رہیں۔ مسجد ایک تاریخی ورثہ ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ لوگوں کو میوزیم دکھایا جاتا ہے، تاکہ وہ مسجد اور شہر سے جڑی دیگر چیزوں سے بھی آگاہی حاصل کریں‘‘۔
مسجد کا بیرونی دروازہ بہت مضبوط اور وزنی تھا۔ مسجد میں زیادہ تر دیار کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ شیشم کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔ مسجد کے صحن کے وسط میں وضو کے لیے حوض بنایا گیا ہے۔ جبکہ بیرونی دروازے سے داخل ہوکر صحن میں داخل ہوں تو بائیں جانب وضو کے لیے ٹوٹیاں بھی لگائی گئی ہیں۔ اب نمازی انہی سے وضو بناتے ہیں۔ حوض اس وقت خشک تھا۔ کیونکہ صحن میں تعمیر نو کا کام جاری تھا اور حالیہ بارشوںکے باعث کام روک دیا گیا تھا۔ مسجد کا صحن خاصا وسیع و عریض ہے، جسے عبور کر کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے۔ اس کے اوپر گنبد تعمیر کیے گئے تھے تو یوں محسوس ہوا جیسے ایک طلسمی عمارت میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہاں پہنچ کر انسان گنگ ہو جاتا ہے۔ فقط احساس باقی رہ جاتا ہے اور وہ احساس اسی دور میں لے جاتا ہے، جب یہ شاہکار تعمیر ہوا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭