ارمان لونی کا پوسٹ مارسٹ مارٹم نہیں کرانے دیا گیا

امت رپورٹ
صوبہ بلوچستان کے ضلع لورالائی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ارمان لونی کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کرانے دیا گیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان کا دعویٰ ہے کہ ارمان لونی پولیس افسر کے تشدد سے ہلاک ہوئے۔ مگر پی ٹی ایم رہنمائوں نے ان کا اسپتال میں پوسٹ مارٹم کروانے سے انکارکر دیا تھا اور زبردستی لاش کو لے گئے تھے۔ لورا لائی کے مقامی سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ارمان لونی کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ اگر پوسٹ مارٹم کروالیا جاتا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ثابت ہو جاتا۔ ارمان لونی کی موت کا تعین کرنے کے لئے قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کروانا ہر صورت میں لازم ہوگا۔
گزشتہ روز ضلع لورا لائی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے مظاہرے کے دوران تنظیم فعال رہنما ابراہیم لونی عرف ارمان لونی ہلاک ہوگئے۔ ان کی ہلاکت پر پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنمائوں نے لورا لائی پولیس کو قصور وار قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی یہ اطلاعات شہ سرخیوں میں موجود رہیں۔ پی ٹی ایم لوالائی کے رہنما عبدالقیوم نے پولیس کو دی جانے والی ایک درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ’’میں سائل، محمد ابراہیم ولد عرف ارمان لونی، عبدالقیوم ولد نیاز احمد، محمد عمر ولد محمد ناصر، عبدالجلیل اور دیگر عبدالرحیم کلب سے تحصیل روڈ کی جانب جا رہے تھے کہ پبلک لائبریری کے قریب پہنچے تو پولیس اہلکاروں نے ہمیں روکا اور روکتے ہی وہاں موجود اے ایس پی عطاء الرحمن ترین نے پوچھا کہ محمد ابراہیم لونی عرف ارمان لونی کون ہے۔ جب ہم نے تعارف کروایا تو اے ایس پی نے محمد ابراہیم عرف ارمان لونی کو الگ کیا اور ایک پولیس اہلکار کو جان سے مارنے کا حکم دیا۔ پولیس اہلکار نے کلاشنکوف کے بٹ سے آہستہ وار کئے تو اے ایس پی مذکورہ نے اس سے کلاشنکوف چھین کر کہا کہ میں کہتا ہوں کہ جان سے مار ڈالو۔ جان سے مارنا کیا ہوتا ہے میں تمہیں دکھاتا ہوں۔ تو اس کے بعد اے ایس پی مذکورہ نے کلاشنکوف کے بٹ سے محمد ابراہیم عرف ارمان لونی کے سینے اور پیٹ پر پے در پے وار کرنا شروع کر دیئے۔ اور دیگر پولیس اہلکاروں کو حکم دیا کہ کسی کو بھی نزدیک آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ تو پولیس اہلکاروں نے کلاشنکوف تان کر ہمیں روکے رکھا اور ہمیں زبردستی پکڑے رکھا۔ اے ایس پی مذکورہ کے مسلسل وار سے محمد ابراہیم عرف ارمان لونی بے ہوش ہوگیا تو اے ایس پی مذکورہ نے کہا کہ اس کا کام تمام کر دیا ہے۔ ہم نے چیخ و پکار کی کہ اسے ہسپتال لے جانے دو، مگر اے ایس پی نے روکے رکھا۔ کسی کو جانے نہ دیا۔ اور جب ہم نے محمد ابراہیم عرف ارمان لونی کو گاڑی میں ڈالا تب بھی اے ایس پی نے اپنی گاڑی ہمارے سامنے کر دی، جس سے ہمیں اسپتال پہنچنے میں دیر ہوئی۔ اسپتال پہنچنے پر چند منٹ میں ان کی موت واقع ہوگئی‘‘۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق جائے وقوعہ یعنی لورا لائی کی پبلک لائبری کے اطراف موجود کسی بھی شخص نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ وہاں شام کے وقت کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے، جس میں پولیس اہلکاروں نے کسی پر تشدد کیا ہو۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے چند لوگ احتجاج ضرور کر رہے تھے، لیکن اس احتجاج کے دوران پولیس اہلکار فاصلے پر موجود تھے کہ اچانک مظاہرین میں سے ایک بندہ گر گیا، جس پر شور شرابے کی آوازیں آئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق محمد ابراہیم عرف ارمان لونی کی موت کے بعد جب اسپتال انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم کرنا چاہا تو پہلے تو موقع پر موجود پی ٹی ایم کے رہنمائوں اور کارکنان نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تاہم چند ہی منٹوں بعد انہوں نے اسپتال میں ہنگامہ مچا دیا اور بوسٹ مارٹم کرائے بغیر لاش کو لے کر چلے گئے۔ لورا لائی ڈسٹرکٹ اسپتال کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ایمرجنسی میں ابتدائی چیک اپ کے دوران اس بات کی واضح علامات موجود تھیں کہ محمد ابراہیم عرف ارمان لونی کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ ابتدائی معائنے کے وقت جب ان کی سانس چل رہی تھی تو ان کے جسم پر کسی قسم کا تشدد نظر نہیں آیا تھا۔ مگر حتمی بات پوسٹ مارٹم رپورٹ ہی سے معلوم کی جا سکتی تھی، لیکن پوسٹ مارٹم کرنے ہی نہیں دیا گیا۔
لورا لائی پولیس کے ذرائع نے پولیس تشدد سے ہلاکت کا الزام مسترد کردیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ پولیس کو دی جانے والی درخواست انتہائی مضکحہ خیز ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ واقعہ لورا لائی کے کسی معروف مقام پر نہیں، بلکہ کسی سنسان مقام پر ہوا ہو۔ ان ذرائع کے بقول پولیس اہلکاروں کے سامنے ارمان لونی گرے ضرور تھے اور پولیس نے ان کو اسپتال پہنچانے میں مدد فراہم کی تھی۔ جس طرح درخواست میں واقعہ بیان کیا جارہا ہے، وہ حقائق کے برخلاف ہے۔ پولیس ہر طرح کی تحقیقات کے لئے تیار ہے اور کسی بھی تحقیقاتی یا جوڈیشنل کمیشن سے تعاون کرے گئی۔ الزام عائد کرنے والے کسی تحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن وغیرہ پر متفق ہوں تو وہ اپنی نگرانی میں پاکستان کے کسی بھی ماہر ڈاکٹروں سے پوسٹ مارٹم کرا لیں۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ موقع کی کوئی بھی ویڈیو اب تک منظر عام پر نہیںآئی۔ اگر درخواست کنندہ کے دعووں کے مطابق انہیں کلاشنکوف سے مارا گیا تھا یا روکا گیا تو بھی ان میں سے کوئی نہ کوئی ویڈیو تو بنا ہی سکتا تھا۔ اس وقت کئی اور لوگ بھی موجود تھے۔ مگر کسی کی بھی کوئی ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی ہے۔
ادھر بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ضلع لورا لائی میں مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے گرفتاری کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما پینتیس سالہ ارمان لونی کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع زیارت کی تحصیل سنجاوی سے تھا۔ ارمان لونی کے قریبی جاننے والوں کے مطابق ان کا اصل نام ابراہیم لونی تھا۔ جبکہ وہ شاعری میں ارمان تخلص استعمال کرتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں مقیم خورشید خان بچپن سے ارمان لونی کے ساتھی تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ارمان لونی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے کے گورنمٹ اسکول سے حاصل کی اور شروع سے ہی وہ شاعری کے علاوہ ترقی پسند سیاست میں فعال تھے۔ ارمان لونی ان کو اسکول کے زمانے سے سیاسی جماعت پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے پروگراموں میں شرکت کی دعوت دیا کرتے تھے۔ ارمان لونی نے سوگواروں میں ایک بیوہ، دو کم عمر بیٹے اور بیٹی چھوڑی ہیں۔ جبکہ وہ تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی نصر اللہ خان زیرے بھی ارمان لونی کو کئی برس سے جانتے تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ارمان لونی کے ساتھ تعلقات اسکول کے زمانے سے تھے۔ ارمان لونی زمانہ اسکول ہی سے پختونخواہ اسٹوڈٹنس آرگنائزیشن میں فعال کردار ادا کرنے کے علاوہ تحصیل سنجاوی اور ضلع زیارت کے عہدیدار رہے۔ نصر اللہ خان کے بقول ارمان نے بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماسٹرز کے لئے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پشتو میں داخلہ لیا تھا۔ پشتو میں ماسٹر کرنے کے بعد انہوں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے پروفیسر کی ملازمت حاصل کرلی۔ سرکاری ملازمت کی وجہ سے وہ سیاسی جلسوں میں خود تو شرکت نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب ان کی بہن وڑانگہ لونی نے سیاست میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اپنی بہن کی بھرپور حمایت کی۔ ارمان لونی خود جلسوں میں ایک کارکن اور سامع کی حیثیت سے شریک ہوتے تھے۔ جبکہ ان کی بہن اسٹیج پر تقاریر کیا کرتی تھیں۔ نصر اللہ خان زیرے کے مطابق پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد ان کی پہلی تعنیاتی ڈگری کالج کوئٹہ میں ہوئی۔ بعدازاں ان کا ڈگری کالج قلعہ سیف اللہ میں تبادلہ ہوگیا تھا، جہاں وہ اپنے خاندان اور بہن وڑانگلہ لونی سمیت رہائش پذیر تھے۔ رپورٹ کے مطابق ممبر قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کے سینئیر رہنما علی وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ارمان لونی پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم رہنما اور مرکزی کور کمیٹی کے ممبر تھے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے آغاز کے وقت سے ہی ارمان لونی تحریک کے ساتھ تھے اور بلوچستان میں پی ٹی ایم کے بانی رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ارمان لونی نے کراچی جا کر بھی پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں شرکت کی۔ حال ہی میں کراچی دھرنے کے دوران گرفتار ہونے والوں میں بھی وہ شامل تھے۔ جبکہ رہائی کے فوراً بعد دوبارہ تحریکی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment