نمائندہ امت
تحقیقاتی اداروں نے صدر پارکنگ پلازہ کے قریب دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے اہلسنت و الجماعت لیاقت آباد کے ذمہ دار محمد ندیم قادری کے قتل کی تحقیقات کالعدم سپاہ محمد اور متحدہ لندن کے دہشت گردوں کے خلاف شروع کردی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں کالعدم تنظیمیں پھر سرگرم ہونے لگی ہیں۔ فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کیلئے انہوں نے اپنے اپنے سلیپرز سیل فعال کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ جبکہ پولیس کے ناقص انٹیلی جنس نظام نے سیکورٹی اداروں کے 5 سالہ آپریشن کی کارکردگی کو خراب کرنا شروع کر دیا ہے۔ دو ماہ کے دوران کراچی میں دہشت گردی کے 4 بڑے واقعات ہوچکے ہیں۔ قائدآباد میں دھماکہ، گلستان جوہر میں ایم کیو ایم پاکستان کی محفل میلاد میں دھماکہ، ڈیفنس میں کار بم دھماکہ اور چینی قونصلیٹ پر حملہ ہوا۔ اسی طرح متحدہ پاکستان کے رہنما علی رضا عابدی کا قتل ہوا۔ پولیس تاحال ان کیسز کا سراغ نہیں لگا سکی ہے۔ حالانکہ علی رضا عابدی کا قتل فرقہ وارانہ دہشت گردی بھی ہو سکتا ہے۔ سہراب گوٹھ میں اہلسنت والجماعت کے تین مدرسہ اساتذہ پر اس دوران فائرنگ کی گئی، جب وہ پٹیل پاڑہ میں ہونے والی جانثاران مصطفی کانفرنس اٹینڈ کرکے جارہے تھے۔ انہیں باقاعدہ ریکی کرکے نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ میں 2 جان بحق اور ایک زخمی ہوا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ ماہ فیروز آباد کے علاقے میں کے ڈی اے کے افسر کو نشانہ بنایا گیا جو شیعہ علما کونسل کے اعزازی نائب صدر تھے۔ جبکہ ہفتے کی رات گیارہ بجے صدر پارکنگ پلازہ کے قریب اہلسنت و الجماعت کے لیاقت آباد ٹائون کے ذمہ دار ندیم قادری کو قتل کردیا گیا۔ پولیس نے حسب روایت واقعے کو دوران ڈکیتی مزاحمت کے کھاتے میں ڈالا۔ مقتول لیاقت آباد کا رہائشی تھا اور صدر میں اٹیچی کیس کی دکان چلاتا تھا۔ رات گیارہ بجے دکان بند کرکے جب نکلا، اس دوران تعاقب کرنے والے موٹر سائیکل سواروں نے پارکنگ پلازہ کے قریب اسے نشانہ بنایا۔
شہر میں جہاں اہل تشیع رہنما فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، وہیں اہلسنت والجماعت کے کارکنان نے بھی اتوار کو پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس تاحال کالعدم تنظیموں کے خطرناک ٹارگٹ کلرز کو گرفتار نہیں کرسکی ہے۔ کیونکہ کراچی کے 108 تھانوں میں انٹیلی جنس نظام انتہائی ناقص ہے۔ چند روز قبل گارڈن پولیس لائن میں اس حوالے سے ایک سیمینار میں اعلیٰ افسران نے تسلیم کیا کہ تھانوں کی سطح پر کام کرنے والے افسران و اہلکار ڈیوٹی پر توجہ نہیں دیتے۔ وہ جوئے، سٹے کے اڈے، منشیات، گٹکے، غیر قانونی تعمیرات کے علاوہ پیداگری کی دیگر جگہوں پر ضرور توجہ دیتے ہیں، تاہم علاقے میں کالعدم تنظیموں اور مشکوک سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھی جاتی۔ اس نااہلی کا نقصان سیکورٹی اداروں کو ہو رہا ہے کہ 2013ء سے جاری آپریشن کے دوران جو امن قائم کیا گیا، اس کو مسلسل بحال رکھنے میں پولیس ناکام ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ادارے بار بار سندھ حکومت کو آگاہی دے رہے ہیں کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فساد کرانے کیلئے کالعدم دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ اپنے سلیپرز سیل فعال کر رہی ہیں۔ ایک جانب کالعدم سپاہ محمد کے دہشت گرد سنی افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب کالعدم لشکر جھنگوی کے دہشت گرد اہل تشیع افراد کو نشانہ بنارہے ہیں۔ شہر کے 22 حساس علاقوں میں انچولی، سادات کالونی، شاہ فیصل کالونی، شاہ فیصل کالونی نمبر 5، ناتھا خان گوٹھ جعفر طیار کالونی، ڈیرہ عباس، کورنگی صنعتی ایریا، بلال کالونی ، شاہ لطیف ٹائون، گلشن، نیو مظفر آباد کالونی، برمی کالونی، ارکان آباد، رضویہ سوسائٹی، خاموش کالونی، غوثیہ کالونی، فقیر کالونی، قصبہ علی گڑھ کالونی، پہلوان گوٹھ، لائنز ایریا اور سولجر بازار سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں میں کالعدم فرقہ وارانہ تنظیمیں دوبارہ چھوٹے چھوٹے نیٹ ورک بنا رہی ہیں۔
کراچی میں کالعدم لشکر جھنگوی کے قاری قاسم گروپ کے علاوہ مفتی خالد کا گروپ چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں نیٹ ورک بحال کر رہا ہے۔ اس کی سرگرمیاں پٹیل پاڑہ، لائنز ایریا، گلبہار غوثیہ کالونی، شاہ فیصل کالونی نمبر 5، ناتھا خان گوٹھ، پہلوان گوٹھ، گلشن اقبال ضیا کالونی اور دیگر علاقوں میں ہیں۔ جبکہ کالعدم سپاہ محمد کے ڈاکٹر علی گروپ کے دہشت گرد مرتضی عرف ساجد، سید حنین علی جعفری اور علی اکبر عرف رحیم عباس ٹائون والے سمیت دیگر دہشت گرد عباس ٹائون، رضویہ سوسائٹی، سادات کالونی، انچولی، جعفر طیار سوسائٹی اور گلشن حدید سمیت دیگر علاقوں میں فعال ہو رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭