ریاست مدینہ کے دعویدار عازمین پر ظلم ڈھارہے ہیں

نجم الحسن عارف
سابق وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے کئے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ہی سال آنے والے حج کو عوام کے لئے مشکل بنا دیا۔ عازمین حج کو سہولت دینا اور حج کے سلسلے میں انتظامات پر اخراجات کم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ اسے سبسڈی کا نام دے کر باتیں کرنا مناسب نہیں ہے۔ سابق وزیر مذہبی امور نے ان خیالات کا اظہار ’’امت‘‘ سے خصوصی بات چیت میں کیا۔
اس سوال پر کہ کیا حکومتوں کیلئے حج اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ سبسڈی ختم کرکے سارا بوجھ پی ٹی آئی حکومت نے عام لوگوں پر منتقل کردیا ہے؟ سردار محمد یوسف کا کہنا تھا… ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اصل مسئلہ حج پر سبسڈی کا نہیں ہے۔ حکومت محض سبسڈی کے اس لفظ کی آڑ لے رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حج کیلئے انتظامات کرنا اور ان انتظامات پر اخراجات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ماضی کی ساری حکومتیں اپنی یہ ذمہ داری انجام دیتی رہی ہیں۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت ہے، جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کی بھی ذمہ داری ہے کہ انتظامات کرے اور انتظامات پر جو بھی اخراجات ہوں انہیں برداشت کرے۔ لیکن اس حکومت نے تو راستہ ہی الٹا لے لیا ہے۔ جب میں وزیر مذہبی امور تھا، اس دوران آخری حج 2018ء میں ہوا۔ اس میں پاکستان کے عازمین حج کو دو لاکھ اسی ہزار روپے ادا کرنا ہوتے تھے۔ لیکن اس حکومت نے بیک جنبش قلم حج اخراجات کو چار لاکھ چھتیسں ہزار روپے تک پہنچا دیا ہے۔ جب سعودی عرب کے طرف سے ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تو ہماری حکومت نے حج اخراجات میں اضافی بوجھ خود برداشت کرنے کیلئے 4 ارب روپے اضافی مختص کئے۔ ان میں سے دو ارب روپے کے اخراجات ہوئے، مگر دو ارب روپے بچ گئے۔ میرے خیال میں حکومت عام آدمی کے لئے کچھ کرنے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اس سے حج کی ادائیگی کو بھی مشکل بنانے سے گریز نہیں کر رہی‘‘۔
سردار محمد یوسف خان نے ایک اور سوال پر کہا کہ ’’حج کے کل اخراجات اگر لگائے جائیں تو ساڑھے تین لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہیں۔ میں نے کل ہی ڈائریکٹر حج سے بات کر کے معلومات حاصل کی ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کرایوں میں مجموعی طور پر کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ صرف سعودی عرب میں ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں معمولی فرق ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے حج اخراجات کو چار لاکھ 36 ہزار تک پہنچاکر بہت ظلم کیا ہے۔ عام پاکستانی پیسے جوڑ جوڑ کر حج اور عمرے پر جانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں نے ایک ہی جست میں حج اخراجات میں اس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ بہت ساروں کی جمع پونجی سے بھی اب حج ممکن نہ ہوسکے گا۔ ہمارے زمانے میں اخراجات کا تخمینہ 3 لاکھ دس ہزار روپے تھا۔ ہم اسے 2 لاکھ 60 ہزار روپے تک لائے‘‘۔
سابق وفاقی وزیر نے اپنے دور کی کابینہ میں حج پالیسی کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا ’’جب ہماری حکومت تھی تو حج پالیسی میں نے کابینہ کے سامنے پیش کی۔ کابینہ نے اس پر ہر پہلو سے پوری سنجیدگی سے غور کیا۔ پالیسی پر اختلاف بھی سامنے آیا۔ لیکن بہت خوش اسلوبی کے ساتھ حج پالیسی کو عام آدمی کی سہولت کے تناظر میں طے کیا۔ یہ اس حکومت کی پہلی حج پالیسی ہے۔ اس میں اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے کہ یہ حاجیوں کو سہولت دینے کو تیار نہیں۔ جبکہ باقی ہر شعبے، حتیٰ کہ ارب پتی صنعتکاروں، تاجروں اور درآمد کنندگان سمیت ہر ایک کو سہولت اور سسبڈی دے رہی ہے۔ حج ایک اسلامی فریضہ ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کا یہ امتیازی رویہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے میں نے حکومت کے اس فیصلے کو ظلم قرار دیا ہے‘‘۔ اس سوال پر کہ حکومت نے نئی مردم شماری کے مطابق عازمین حج کیلئے کوٹہ بڑھانے کی خاطر سعودی عرب سے کیوں رابطہ نہیں کیا ہے؟ سردار یوسف نے کہا ’’جب ہماری حکومت کے دنوں میں آخری حج پالیسی کا مرحلہ آیا تو نئی مردم شماری ہوچکی تھی، مگر حتمی نتائج مرتب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ہم نے سعودی حکومت سے کہا کہ ہماری آبادی کے تناسب سے ہمارے کوٹے میں اضافے کیا جائے۔ لیکن چونکہ ہمارے پاس ابھی حتمی اعداد و شمار نہیں تھے، اس وجہ سے سعودی حکومت نے کہا کہ ہم آپ کو عبوری طور پر پانچ ہزار حجاج کی مزید اجازت دیتے ہیں۔ اب تو مردم شماری ہر حوالے سے مکمل ہو چکی ہے۔ سارے اعداد و شمار سامنے ہیں۔ لیکن حکومت نے اس کے باوجود سعودی عرب سے پاکستان کی آبادی کے تازہ اعداد و شمار کی بنیاد پر رابطہ کرکے اپنا کوٹہ بڑھانے کی بات نہیں کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں، یہ ظلم سے بھی بڑھ کر بات ہے۔ حکومت کی عازمین حج کے حوالے سے اس بے اعتنائی کی وجہ سے کم از کم 35 ہزار پاکستانی رواں سال حج سے محروم رہیں گے۔ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکت میں حج کے بارے میں یہ رویہ ناقابل فہم ہے‘‘۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی حج پالیسی کے سلسلے میں سفارشات کو حکومت کی جانب سے نظر انداز کرنے کے بارے میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس میں ہر مکتبہ فکر کے نمائندہ لوگ موجود ہیں۔ حکومت نے اس کی رائے کی بھی پروا نہیں کی۔ وجہ صرف ایک ہے کہ حکومت حج پر جانے والوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے‘‘۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب کیلئے عمومی سفری اخراجات کے برابر حج کے سفری اخراجات کو لانے کے بارے میں ہماری حکومت نے بھی ’’اوپن سکائی پالیسی‘‘ کی بات کی تھی۔ لیکن پی آئی اے تو پہلے ہی خسارے میں چل رہی تھی۔ اگر اوپن سکائی پالیسی آتی تو دوسری ایئر لائنز اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتیں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے تھا کہ عام آدمی پر بوجھ بڑھانے کے بجائے اچھے انتظامات کیلئے اخراجات میں اضافے کا چیلنج خود قبول کرتی‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment