حج و عمرہ اخراجات میں کمی کا جلد امکان

مرزا عبدالقدوس
وفاقی حکومت نے حج پیکیج 2019ء میں غیر ملکی کرنسی کی قیمت میں اضافے اور سعودی حکومت کی جانب سے عائد ٹیکسز میں اضافے کو جواز بنا کر حج اخراجات میں 63 فیصد اضافہ کیا، جو تمام دینی حلقوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ حکومت کو اس اضافے میں خاطر خواہ کمی کرنے پر مجبور کرنے کیلئے دبائو بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اس شدید تنقید اور دبائو کے بعد اب اس بات کا امکان ہے کہ حکومت اسی ہفتے حج اخراجات میں کمی کا اعلان کر دے۔ اس سلسلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر یہ اعلان متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق ممکنہ طور پر پرنس محمد بن سلمان بھی پاکستانی حجاج کیلئے حج ٹیکسز میں کمی کا اعلان کریں گے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور نے کابینہ میں حج پالیسی پیش کرتے ہوئے اس سال حج پر جانے کے خواہش مند خواتین و حضرات کو رعایتی پیکج دینے کی سفارش کی تھی۔ معتبر ذرائع کے مطابق اپنے اس موقف کی انہوں نے کابینہ اجلاس میں وکالت بھی کی۔ لیکن محدود دینی علم کے حامل دو تین وزرا نے اس طرح کی رعایت جسے سبسڈی کا نام دیا جا رہا ہے، کو شریعت کے منافی قرار دے کر اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس موقع پر وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری احتجاجاً اجلاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں جس حج پالیسی کی منظوری دی گئی، اس پالیسی کا انہوں نے پریس کانفرنس میں اعلان کرنے سے بھی معذرت کرلی تھی۔ جس پر یہ پہلی بار ہوا کہ حج پالیسی کے اعلان کے موقع پر وفاقی وزیر مذہبی امور موجود نہیں تھے اور اس کا اعلان وزیر اطلاعات و نشریات نے کیا۔ حکومت کا موقف ہے کہ ڈالر اور ریال کی قیمتوں میں اضافے اور سعودی حکومت کے پہلے سے عائد ٹیکسز میں اضافے اور بعض نئے ٹیکسز کے اطلاق کی وجہ سے حج پیکیج میں اضافہ ناگزیر تھا اور حج پر سبسڈی دینا ویسے بھی جائز نہیں۔
اس سلسلے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے دور میں بھی غیر ملکی کرنسی کی قیمت میں کچھ اضافہ ہوا تھا اور ٹیکسز کا اطلاق بھی ہوا۔ لیکن ہم نے اپنے پانچ سالہ دور میں بہتر انتظامات کئے اور ایسے اخراجات، جن پر کنٹرول ممکن تھا، ان پر قابو پاکر گزشتہ برسوں کی نسبت کم پیکیج کے ساتھ نہ صرف عازمین کو حج کرایا، بلکہ پہلے سے زیادہ سہولیات اور آسانیاں بھی فراہم کیں‘‘۔ سردار یوسف نے کہا کہ ’’موجودہ حکومت نے حج اخراجات میں جو اضافہ کیا ہے، وہ ظلم اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اس سعادت سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ اب بھی اگر حکومت پاکستان بعض اخراجات کو کنٹرول کرے اور سعودی عرب سے مناسب فورم پر بات چیت کرے تو حج اخراجات میں خاطرہ خواہ کمی ممکن ہے‘‘۔
جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’اگر حکومت کی اس دلیل کو بھی تسلیم کر لیا جائے کہ ریال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے اور سعودی ٹیکسز کی وجہ سے حج اخراجات میں اتنا زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، تو بھی حکومت دلیل کی بنیاد پر اس معاملے میں غلط ہے اور فریضہ حج کی ادائیگی کے خواہش مند افراد پر ظلم کر رہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’سعودی ریال اور پاکستانی روپے کا گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو حج اخراجات میں پندرہ سے بیس فیصد اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی وجہ سے ایئر لائنز کے کرایوں میں کمی بھی ہونی چاہئے۔ حکومت کا کام اپنے شہریوں کو آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنا ہے۔ اس نے سعودی حکام سے اس سلسلے میں کوئی بات کیوں نہیں کی۔ دوسری جانب یہ انتہائی ظلم ہے کہ سبسڈی کو تو حرام کہہ رہے ہیں، لیکن حج کے ایک طرفہ سفر کا تقریباً دو طرفہ کرایہ لیا جاتا ہے۔ ان دنوں جو یک طرفہ کرایہ 74 (چوہتر) ہزار روپے ہے، حج پیکیج میں وہی کرایہ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار روپے سے زائد ہے۔ اسی طرح عمارتوں اور ٹرانسپورٹ کے نام پر بھی بھاری رقوم پیکیج میں شامل ہیں‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اس ایشو پر تمام جماعتوں کا موقف یکساں ہے۔ کیونکہ سب جماعتیں عوام کی نمائندہ اور ان کی مشکلات سے آگاہ ہیں۔ سینیٹ کے علاوہ قومی اسمبلی میں بھی حکومت پر دبائو بڑھائیں گے کہ وہ اس پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ امکان ہے کہ ہمیں اس میں کامیابی ہوگی اور موجودہ حکومت نے عوام پر مالی بوجھ بڑھانے کی جو پالیسی اپنا رکھی ہے، حج کی حد تک اسے ایسا نہیں کرنے دیں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment