پنجاب میں تبدیلی کے لئے نئی بساط بچھانے کی کوششیں تیز

امت رپورٹ
چند دنوں پہلے تک سندھ کی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی تھی اور ان ہائوس تبدیلی کی خبریں عروج پر تھیں۔ لیکن وار پلٹ گیا ہے اور اب یہی آوازیں پنجاب میں سنائی دے رہی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے لندن روانہ ہونے سے پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ بالواسطہ رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق یہ بات چیت ایک بزنس مین کے ذریعے ہوئی، جو دونوں کا مشترکہ دوست ہے۔ مذکورہ بزنس مین چوہدری پرویز الٰہی کے پاس گیا اور وہاں سے اپنے موبائل فون پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کی حمزہ شہباز سے بات کرائی۔ قبل ازیں حمزہ شہباز اور چوہدری مونس الٰہی کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی سے بددل چوہدری برادران اب متبادل آپشنز پر غور کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں دیرینہ سیاسی حریفوں نون لیگ اور قاف لیگ میں فاصلے بتدریج کم ہو رہے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے قاف لیگ کی شکایات کے ازالے میں مزید تاخیر کی گئی تو یہ فاصلے بہت جلد کم ہوجائیں گے۔
ذرائع کے مطابق نون لیگ اور قاف لیگ کے ابتدائی رابطوں میں پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ لیکن ان رابطوں کو دونوں پارٹیوں کے درمیان برف پگھلانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تاکہ اگلے مرحلے میں کسی بڑے سیاسی فیصلے پر دونوں پارٹیوں کو ایک پیج پر لانے کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ پنجاب میں مستقبل کی سیاست کے حوالے سے حمزہ شہباز کی لندن میں بھی بعض ملاقاتیں متوقع ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں اس نوعیت کے رابطوں کے افشا ہونے کا خدشہ تھا۔ حمزہ شہباز لندن روانہ ہو چکے ہیں۔ بظاہر اس دورے کو نجی قرار دیا جا رہا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ 13 فروری کو واپس آجائیں گے۔ تاہم ذرائع کے بقول حمزہ شہباز کی واپسی کے شیڈول میں تھوڑی بہت تبدیلی ہوسکتی ہے، لیکن ان کی واپسی سو فیصد یقینی ہے۔ کیونکہ پنجاب میں مستقبل کی سیاست کا جو سیناریو بن رہا ہے، اس کے سبب حمزہ شہباز کا پاکستان میں رہنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب میں قاف لیگ، پی ٹی آئی کی اہم اتحادی پارٹی ہے۔ قاف لیگ کے الگ ہونے سے صوبے میں پی ٹی آئی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی پارٹی کے ساتھ قاف لیگ کے درپردہ رابطوں کو لے کر پی ٹی آئی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ بیوروکریسی کے حلقوں تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ اب بعض منجھے ہوئے بیوروکریٹ بھی نجی محفلوں میں یہ بات کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں تبدیلی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی سے حمزہ شہباز کے حالیہ رابطوں کے بارے میں ایک پرانے لیگی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ سیاست سے ہٹ کر چوہدری برادران اور شریف برادران کے درمیان ہمیشہ سے مثالی تعلقات رہے ہیں۔ حمزہ اور مونس الٰہی ایک دوسرے کے گہرے دوست رہے ہیں۔ اسی طرح حمزہ کی والدہ اور مونس الٰہی کی والدہ بھی آپس میں اچھی سہیلیاں ہیں۔ حج کے موقع پر دونوں خاندانوں کی یہ اہم خواتین مکہ اور مدینے میں ایک ساتھ تین تین ماہ گزارتی رہی ہیں۔ لیگی عہدیدار کے مطابق دونوں خاندانوں کے درمیان سیاسی دوریاں بھی کب کی ختم ہوچکی ہوتیں، اگر شریف خاندان کی طرف سے نرم گوشہ دکھایا جاتا۔ اس حوالے سے نون لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں کئی مواقع آئے، جب چوہدری برادران کی طرف سے درپردہ نون لیگ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا۔ لیکن شریف برادران کی خودپسندی اس مفاہمت میں رکاوٹ بنی رہی۔ لیگی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر شریف برادران اپنے دور اقتدار میں نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چوہدری برادران سے تلخیوں کا خاتمہ کرلیتے تو آج پنجاب میں نہ پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی اور نہ ہی قاف لیگ ان کی اتحادی بنتی۔ لیگی عہدیدار کے مطابق تحریک انصاف اور قاف لیگ کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ تلخی نے دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک بار پھر مفاہمت کا موقع پیدا کیا ہے، اور اس وقت یہ مفاہمت دونوں پارٹیوں کی سیاسی ضرورت بھی ہے۔
ذرائع کے مطابق نون لیگ اور قاف لیگ کے درمیان درپردہ رابطوں کی اطلاعات پر تحریک انصاف کے پنجاب چیپٹر میں ہلچل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ لاہور کے موقع پر بھی یہ ایشو ڈسکس کیا گیا۔ اتوار کو وزیر اعظم ایک روزہ دورے پر لاہور پہنچے تھے۔ اس دورے کا بنیادی ایجنڈا سانحہ ساہیوال اور اس تناظر میں اٹھائے جانے والے مجوزہ اقدامات تھے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری سرور سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر پنجاب کی سیاسی صورتحال اور قاف لیگ کی ناراضگی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
ذرائع نے بتایا کہ حمزہ اور پرویز الٰہی کے درمیان رابطوں پر فکرمند پی ٹی آئی کا پنجاب چیپٹر خود بھی اب تک تین گروپوں میں تقسیم ہے۔ جس سے پارٹی کو جہاں ایک طرف طاقت ور اپوزیشن اور ناراض اتحادیوں کا سامنا ہے، وہیں آپس کے اختلافات نے معاملہ مزید سنگین بنادیا ہے۔ ذرائع کے بقول پنجاب میں پی ٹی آئی کے اندر اب بھی تین گروپ متحرک ہیں۔ ان میں ایک گروپ گورنر پنجاب چوہدری سرور کا ہے۔ دوسرا گروپ میاں محمودالرشید اور تیسرا گروپ علیم خان کا ہے۔ ذرائع کے مطابق دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی گروپ دل سے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ بالخصوص علیم خان اس میں پیش پیش ہیں۔ واضح رہے کہ علیم خان کا نام بھی وزارت اعلیٰ پنجاب کے مضبوط امیدواروں میں شامل تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ عثمان بزدار کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر حلف اٹھائے جانے کے بعد سے علیم خان اور عثمان بزدار کے درمیان تعلقات کشیدہ چل رہے تھے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل دونوں میں صلح کرادی گئی۔ لیکن فوری طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ اس صلح سے دلوں کی رنجشیں بھی دور ہوئی ہیں یا نہیں۔ ذرائع کے مطابق علیم خان کو توقع ہے کہ مسلسل بڑھتے دبائو کے نتیجے میں بالآخر عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانا پڑے گا اور مستقبل کے اس ممکنہ سیناریو کو پیش نظر رکھ کر علیم خان نے یہ منصب حاصل کرنے کے لئے ابھی سے اپنی لابنگ شروع کر رکھی ہے۔ مہینے میں ایک یا دو بار میڈیا کے سینئر لوگوں اور رپورٹرز سے ان کی ملاقاتیں اس لابنگ کا ایک حصہ ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ بعض رپورٹرز کو علیم خان نے یہاں تک کہا کہ وہ عمران خان کے سامنے یہ سوال بھی اٹھائیں کہ آپ عثمان بزدار کو وسیم اکرم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ میچ فکسنگ کے حوالے سے جسٹس قیوم کمیشن نے وسیم اکرم کو آئندہ کرکٹ بورڈ میں کوئی عہدہ نہ دینے کی سفارش کی تھی۔ ذرائع کے مطابق دلچسپ امر یہ ہے کہ عثمان بزدار کے مقابلے میں پرویز الٰہی کو گورنر پنجاب اور میاں محمودالرشید کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ یوں اپوزیشن کی طرف سے تو عثمان بزدار کو ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا ہی جارہا ہے، خود ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی ان کے مخالف موجود ہیں۔
وزیر اعظم پر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹائے جانے کا دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عثمان بزدار کو ہٹادیا جاتا ہے تو پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔ تاہم عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ پر برقرار رکھنے کی صورت میں نون لیگ، قاف لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ہوکر پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی لے آئیں گی۔ تینوں پارٹیاں طاقت رکھنے کے باوجود بغیر تائید کے پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی نہیں لا سکتیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment