تابعین کے ایمان افروز واقعات

عدالت نے امل کا مؤقف تسلیم کر لیا کہ وہ عاقل و بالغ ہے، تعلیم یافتہ ہے اور اس نے اسلام اپنی آزاد مرضی سے قبول کیا ہے، اس لیے وہ مسلمان ہی رہے گی اور اس کے والدین یا خاندان کو حق حاصل نہیں ہے کہ اس سلسلے میں اس پر کوئی جبر کیا جائے۔
فیصلے کے بعد امل واپس حماہ آگئی اور اپنی دوست عالیہ الجواد کے پاس رہنے لگی۔ عالیہ حماہ کے قریب ایک گاؤں میں رہتی تھی اور ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، امل کو بھی اسی اسکول میں ملازمت مل گئی۔
ایک روز امل اور عالیہ اسکول جا رہی تھیں کہ اچانک ایک کار ان کے پاس آکر رکی، اس میں سے دو آدمی نکلے، انہوں نے آناً فانًا امل کو قابو کیا اور دبوچ کر کار میں ٹھونس کر یہ جا وہ جا، کار میں امل کی والدہ بھی تھی۔
امل اس اچانک حادثے پر بوکھلا گئی، کچھ دیر تک اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ پھر اس نے ذہانت سے کام لیا اور اپنی والدہ کو بتایا کہ آپ نے اچھا کیا میری مدد کو آگئے، میں خود اس ماحول سے تنگ تھی، مگر خوفزدہ اور مجبور تھی، کچھ کر نہیں سکتی تھی، اب میں دل و جان سے آپ کے ساتھ ہوں۔
امل نے زبان سے تو یہ سب کچھ کہہ دیا، مگر وہ دل ہی دل میں خدا سے مدد کی التجا کر رہی تھی۔ وہ بڑی ہی پریشانی اور دل گرفتگی کے ساتھ خدا کے حضور دعا کر رہی تھی ’’باری تعالیٰ میں کفر و شرک کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی، تو نے اپنے فضل سے مجھے توحید اور اسلام کی نعمت عطا فرما دی۔ اب یہ ظالم دوبارہ مجھے انہی اندھیروں میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ میں تیری بہت کمزور اور عاجز بندی ہوں اور اگر تیری مدد شامل حال نہ ہوئی تو میں تباہ و برباد ہو جاؤں گی… باری تعالیٰ میری مدد فرما… تیرے سوا اس وقت کوئی میری مدد نہیں کرسکتا۔‘‘
وہ آنکھیں بند کیے دل میں یہ کلمات دہرا رہی تھی، کہ گاڑی حساقہ کے قریب جا پہنچی، اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ سامنے چیک پوسٹ تھی اور چند فوجی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور جونہی گاڑی کے بریک لگے، اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھولا، باہر نکل آئی اور چند فقروں میں فوجیوں سے اپنی داستان کہہ ڈالی۔ اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہو گئی ہے، عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ لیکن یہ لوگ زبردستی اسے حماہ سے اغوا کر کے لے آئے ہیں اور اب اسے یا تو دوبارہ عیسائی بنالیں گے یا جان سے مار دیں گے۔
مسلمان فوجی امل کا مسئلہ سمجھ گئے۔ انہوں نے اسے پنا دے دی اور اغوا کرنے والوں کو اپنی حراست میں لے لیا۔ امل کو حفاظت کے ساتھ واپس حماہ پہنچا دیا گیا، جہاں اس نے بدر الشواف، شیخ توفیق صباغ اور عالیہ کے تعاون سے ایک باعمل مسلمان نوجوان سے شادی کر لی اور ایک مسلمان مبلغہ کی حیثیت سے پر مسرت زندگی گزارتی رہی۔
سسٹر امینہ
محترمہ امینہ جنان کا تعلق امریکہ سے ہے۔ انہوں نے 1977ء میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس سے قبل وہ امریکہ کے سنڈلے اسکولوں میں عیسائیت کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ قبول اسلام کے بعد انہیں غیر معمولی قسم کی قربانیاں دینی پڑیں، مگر انہوں نے کسی موقع پر حوصلہ مندی اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
ذیل میں ان کی خود نوشت نذر قارئین ہے:
میں جنوری 1945ء میں امریکہ کی ریاست لاس اینجلس کے علاقہ ویسٹ میں پیدا ہوئی۔ میرے والدین پروٹسٹنٹ عیسائی تھے اور ننھیال و ددھیال دونوں طرف مذہب کا بڑا چرچا تھا۔ میں اسکول کے آٹھویں گریڈ میں تھی کہ میرے والدین کو فلوریڈا منتقل ہونا پڑا اور باقی تعلیم وہیں
مکمل ہوئی۔ میری تعلیمی حالت بہت اچھی تھی، خصوصاً بائبل سے مجھے خاص دلچسپی تھی اور اس کے بہت سے حصے مجھے زبانی یاد تھے۔ اس سلسلے میں، میں نے متعدد انعامات بھی حاصل کئے۔ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور وومن لبریشن موومنٹ (تحریک آزادیٔ نسواں) کی پُر جوش کارکن تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment