تثلیث سے توحید تک

فروخؒ نے اس آدمی سے پوچھا: ’’ربیعہ کس کا بیٹا ہے؟‘‘ اس شخص نے کہا: ’’یہ اس مجاہد کا بیٹا ہے جس کا نام فروخ ہے، یہ اس کے جہاد پہ روانہ ہونے سے چند ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔ اس کی والدہ نے اس کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی۔ میں نے ابھی نمازِ فجر سے پہلے کچھ لوگوں کی زبانی سنا ہے کہ اس کا باپ تیس سال کے بعد گزشتہ رات مدینہ واپس آیا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر فروخؒ کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے، لیکن یہ شخص ان آنسوؤں کے گرنے کا سبب نہ جان سکا۔ پھر فروخؒ جلدی سے اپنے گھر پہنچے، بیوی نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں، پوچھا: ابو ربیعہ! حق تعالیٰ خیر کرے کیا ہوا، آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر کیوں ہیں؟
فروخ نے کہا: گھبراؤ نہیں، سب خیر ہے۔ آج میں نے اپنے بیٹے ربیعہ کی نرالی شان دیکھی ہے، یہ منظر دیکھ کر بے انتہا خوشی میں میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ آج اس کے علمی مقام، خوش بیانی اور لوگوں کی اس کے ساتھ بے پناہ محبت نے مجھے بے حد خوش کردیا، میں کس قدر خوش نصیب ہوں کہ مجھے اتنا بلند مقام بیٹا ملا۔
اُمّ ربیعہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کہا: آپ کو ان دو چیزوں میں سے کون سی چیز زیادہ محبوب ہے، تیس ہزار دینار… یا اپنے بیٹے کا علم و فضل میں بلند مقام؟
فروخ نے کہا: خدا کی قسم! مجھے پوری دنیا کے مال سے زیادہ اپنے بیٹے کا یہ مقام قیمتی اور محبوب دکھلائی دیتا ہے۔ بیوی نے کہا: جو مال آپ مجھے بطورِِِ امانت دے گئے تھے، وہ میں نے اس کی تعلیم و تربیت پر خرچ کردیا ہے، کیا آپ اس سے خوش ہیں؟
فروخ نے فرمایا: ہاں کیوں نہیں! مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حق تعالیٰ آپ کو میری، میرے بیٹے اور تمام مسلمانوں کی جانب سے جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘
یہ اصول ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’ من جد وجد‘‘ یعنی جو محنت کرتا ہے وہ ضرور اس کا پھل پاتا ہے۔ جو دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو ایک دن ضرور دروازہ کھل جاتا ہے۔
حضرت ربیعہ رائیؒ نے اپنی پڑھائی پر محنت کی تو ایک وقت آیا کہ وہ علماء کے سردار بن گئے، اس لیے ہمیں بھی علم حاصل کرنے میں محنت کرنی چاہئے، کوئی بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، اس کے ساتھ علم حاصل کرنے کے لیے یہ دعا ہر نماز کے بعد مانگنے کا معمول بنانا چاہئے: خدایا! میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے، تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔
ماؤں کو بچوں کی تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے، ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کی فکر کریں اور ان کی اچھی تربیت کریں، تاکہ کل جب یہ بچے بڑے ہوں تو دین کے خادم اور والدین کے فرماں دار بنیں۔ طالبعلم کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے والدین ہماری تعلیم کے لیے کتنا خرچ کرتے ہیں، اسکول، مدرسہ، اساتذہ، ہم پر کتنا خرچ کرتے ہیں، کوئی اپنی زمین تعلیم کے لیے وقف کرتا ہے، کوئی تعمیر کرواتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب ہم نے علم حاصل کرنے کے لیے محنت نہ کی، وقت ضائع کیا تو اتنے لوگوں کی گویا ہم نے محنت کی قدر نہ کی، گویا صرف ہم نے اپنا ہی وقت ضائع نہیں کیا، بلکہ اتنے سارے لوگوں کا وقت ضائع کیا، اس لیے ہمیں خود محنت کرنی چاہئے اور دل لگا کر علم حاصل کرنا چاہئے۔
حضرت رجاء بن حیوہؒ:
’’کندہ قبیلے میں تین اشخاص ایسے ہیں، جن کی وجہ سے خدا تعالیٰ بارش نازل فرماتے ہیں اور دشمنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی مدد فرماتے ہیں، ان میں ایک رجاء بن حیوۃؒ ہیں۔‘‘ (مسلمہ بن عبد الملک) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment