ہرات کا نواب بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔ اس کی خوش اخلاقی اور فیاضی کی وجہ سے عوام الناس مسافر، تاجر، الغرض تمام لوگ خوش تھے اور یہ بادشاہِ وقت کا وفادار ساتھی تھا۔ بادشاہ اس پر مکمل اعتماد کرتا تھا۔ اس نواب کے کافی تعداد میں غلام تھے، جن کو وہ بیٹوں کی طرح آرام اور زیب و زینت سے رکھتا تھا۔ اطلس اور کمخواب کی قبائیں اور ان پر گنگا جمنی پٹیاں ان کی شان دوبالآ کئے دیتی تھیں۔ ان شاندار زیب و زینت سے آراستہ غلاموں کی ٹولیاں بازار میں گشت کر رہی تھیں۔
ایک غریب مفلس قلاش شخص جو بھوکا اور ننگا تھا۔ ان کو دیکھ کر لوگوں سے پوچھنے لگا کہ یہ رئیس زادے کون ہیں؟
جواب دینے والے نے کہا: ’’یہ ہمارے اس علاقے کے نواب کے نوکر چاکر ہیں۔‘‘
وہ سُن کر حیران رہ گیا اور آسمان کی طرف منہ کر کے کہنے لگا: ’’اے خدا! اپنے اس بے نوا دبلے بندے کو دیکھ کہ سردی کے مارے میرے دانت بج رہے ہیں اور بھوک سے میرا بُرا حال ہو گیا ہے اور اس علاقے کے نواب بندہ پرور کو دیکھ کہ اس کے غلام کتنے موٹے تازے خوش پوش اور بااحتشام ہیں۔ بے فکری اور فارغ البالی سے اِدھر اُدھر اِتراتے پھر رہے ہیں۔‘‘
یہ غریب بالکل محتاج بے ہنر اور بے نوا تھا اور جاڑے کی سرد ہواؤں سے ٹھٹھر رہا تھا۔ اس لئے بے خودی کے عالم میں شاید اس کو خدا تعالیٰ کے ہزار ہا بخششوں پر اعتماد تھا۔ اس ناز سے یہ کلمے کہہ گیا۔
بندہ پروردن بیا موز اے خدا
زیں رئیس و اختیار شہر ما
تقدیرِ الٰہی سے نواب رئیس کے عروج کا ستارہ زوال پذیر ہوگیا۔ بادشاہ نے بعض وجوہات کی بناء پر اس کو قید کروا دیا۔ اس کے اموال واملاک کو ضبط کر لیا اور اس کے وفادار ساتھیوں کو شکنجوں میں پھنسا کر نواب رئیس کے دفینوں کے متعلق پوچھنے لگا۔
اتنی تکلیف کے باوجود رئیس کے کسی غلام نے بھی کوئی بات نہ بتلائی۔ یہ سب کچھ اس منہ پھٹ بے نوا کے سامنے ہو رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا میں تمہاری زبان اور ہاتھ کٹوا ڈالوں گا۔ تمام غلام خاموش رہے۔ اس پر بادشاہ کے غضب کی آگ اور پھڑک اٹھی اور وہ مسلسل کئی دن تک ان پر بے جا سختیاں کروا تا رہا۔ لیکن کیا مجال کہ کسی کی زبان نے اپنے مالک کے متعلق کوئی کشوہ و شکایت یا بھید ظاہر کیا ہو۔
یہ دردناک منظر دیکھ کر وہ بے نوا شخص بے ہوش ہو گیا۔ عالم بے ہوشی میں اس نے یہ آواز سنی کہ ’’خالق و مالک سے بد زبانی کرنے والے اور خدا تعالیٰ کو بندہ پروری کا سبق دینے والے ان غلاموں کی وفاداری دیکھ ذرا، بندہ بننے کا سبق بھی ان غلاموں سے سیکھ۔‘‘
درسِ حیات
٭ انسان خدا کی حقیقت سے کبھی بھی واقف نہیں ہو سکتا، لہٰذا انسان کو خدا کی بارگاہ میں کبھی گستاخی کے الفاظ ادا
نہیں کرنے چاہئیں۔
کمالِ فن اور شیخی
عربی گرائمر (صرف و نحو) کے علم ماہر ایک استاذ دریا عبور کرنے کیلئے کشتی پر سوار ہوا۔ جب کشتی باد موافق کے سہارے مزے سے دریا پر تیرتی جا رہی تھی تو علم نحوکے بادشاہ نے ملاح سے باتیں کرنا شروع کردیں۔ پوچھنے لگا ’’بھائی ملاح، تو نے علم نحو پڑھا ہے؟ ملاح کیا جانے کہ علم نحو کیا بلا ہے؟
کشتی بان نے کہا مولوی صاحب، نحو کیا چیز ہے؟ میں نے آج تک اس کا نام بھی نہیں۔ استاذ بولا: واہ، رے میاں ملاح! تو نے تو یونہی آدھی عمر برباد کردی ہے۔ اے جو شخص علم نحو سے واقف نہیں، وہ انسان نہیںحیوان ہے۔ افسوس تو نے اپنی زندگی کشتی چلانے میں گنوادی۔ نحو جیسا فن نہ سیکھا۔
کشتی چلانے والے کو بڑا غصہ آیا۔ بہرحال بے چارہ خاموش ہوگیا اور لاجواب ہو کر چپ رہا۔ جب کشتی عین دریا کے درمیان میں پہنچی تو قدرتی طور پر باد مخالف زور سے چلنے لگی۔ سب کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ کشتی کا بسلامت کنارے پر لگنا ناممکن نظر آنے لگا۔
ملاح نے کہا کہ بھائیو! کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے، تیر کر پار ہونے کے لئے تیار ہوجائو۔ ملاح نے اس وقت علم نحو کے ماہر استاذ سے کہا کہ حضور! اب اپنے فن سے کام لیجئے۔ کشتی غرق ہونے والی ہے۔ حضور اس وقت خاموش رہے۔ اس وقت علم نحو کیا کام دیتا۔ پھر کشتی بان نے کہا کہ اس وقت نحو کا کام نہیں، محو کا کام ہے۔ آپ کو کچھ تیرنا بھی آتا ہے؟ استاذ صاحب نے کہا کہ بالکل بھی نہیںآتا۔
ملاح نے کہا کہ حضرت پھر تو آپ ساری عمر برباد ہوگئی۔
دریا کا پانی مردہ کو اپنے سر پر رکھتا ہے اور زندہ غرق ہو جاتا ہے۔ اپنے آپ کو مٹانے اور فنا کرنے سے حق تعالیٰ کا راستہ طے ہوتا ہے۔ تکبر والے محروم اور غرق آب ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔
درس حیات: غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭