حضرت جنیدؒ کی ولادت سے پہلے آپؒ کے والد جناب محمدؒ نے ترکِ وطن کر کے بغداد کی سکونت اخیار کر لی تھی۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے والد محترم آئینہ سازی اور شیشہ گری کے آلات کی تجارت کیا کرتے تھے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ جناب محمدؒ نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کیلئے کوہستانی علاقہ چھوڑا اور بغداد منتقل ہوگئے۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید نے 214ھ میں علی بن ہشام نامی ایک شخص کو علاقہ جبل کا عادل (گورنر) مقرر کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی قم، اصفہان اور آذربائیجان وغیرہ کے علاقے بھی اس کی تحویل میں دے دیئے تھے۔
علی بن ہشام فطرتاً ایک سنگ دل انسان تھا، اس نے حکومت کا رعب وجلال قائم کرنے کیلئے مخلوقِ خدا پر بے شمار مظالم ڈھائے۔ ہزاروں انسانوں کا مال واسباب لوٹا اور ان کی جائیدادیں ضبط کرلیں۔ بہت سے لوگوں کو سرِ مقتل لے جا کر ذبح کر ڈالا۔ نتیجتاً پورے علاقے میں ایک کہرام برپا ہوگیا، مجبورو بے کس انسان آسمان کی طرف منہ کر کے فریاد کرتے تھے۔
’’اے خدا! تُو نے علی بن ہشام کو ہمارے کون سے گناہوں کی پاداش میں ہم پر نازل کیا ہے؟‘‘
اسی گریہ وزاری کے دوران وہ ستم رسیدہ لوگ غائبانہ طور پر عباسی خلیفہ مامون الرشید کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے’’امیرالؤمنین! آپ کو خبر بھی ہے کہ آپ نے کس ظالم و جابر حاکم کو ہم پر مسلط کیا ہے؟ کیا یہی آپ کا نظام مملکت ہے؟‘‘
جب علی بن ہشام کی ایذا رسانیوں کی خبریں خلیفہ مامون الرشید تک پہنچیں تو وہ شدتِ غضب سے بدحواس ہو گیا۔ پھر اس نے فوری طور پر عجیف نامی ایک شخص کو سرِ دربار طلب کیا جو شجاعت واستقامت میں بڑی شہرت رکھتا تھا۔ عجیف! جب سے میں نے علی بن ہشام کے مظالم کی داستانیں سنی ہیں، میں بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید نے عجیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا تُو مجھے میری کھوئی ہوئی نیندیں لوٹا سکتا ہے؟
امیر الؤمنین! میں کوئی طبیب نہیں ہوں۔ عجیف نے عاجزی کے ساتھ عرض کیا۔ اگر میری وجہ سے خلیفۃ المسلمین کی کھوئی ہوئی نیندیں واپس آسکتی ہیں تو غلام حاضر ہے۔ عجیف اپنی جان دے کر بھی آپ کے خوابوں کو پُر سکون بنا سکتا ہے۔
میری آنکھیں بس ایک ہی منظر دیکھنا چاہتی ہیں کہ تُو علی بن ہشام کو زنجیریں پہنا دے اور پھر اسے میرے قدموں میں لاکر ڈال دے۔ مامون الرشید بہت زیادہ جذباتی ہوگیا تھا، پھر میں اس ستمگر و نافرمان کا سر اپنے پیروں سے کچل ڈالوں۔
اگر میری زندگی نے وفا کی تو ایسا ہی ہوگا امیر الؤمنین! عجیف نے سر خم کرتے ہوئے کہا۔
پھر مامون الرشید کے حکم پر عجیف اپنا لشکر لے کر علاقہ جبل کی طرف بڑھا۔ جب علی بن ہشام نے یہ خبر سنی تو اس نے سرکشی اختیار کی اور حکومت کے دوسرے باغی بابک سے مل کر علم بغاوت بلند کرنا چاہا، مگر عجیف نے اُسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور وہ کسی بلائے نا گہانی کی طرح علی بن ہشام کے سر پر پہنچ گیا اور پھر 217ھ میں اس جابر و سفاک انسان کو گرفتار کر کے عباسی خلیفہ مامون الرشید کے سامنے پیش کر دیا۔
علی بن ہشام کو دیکھ کر مامون الرشید اس قدرجذباتی ہوگیا تھا کہ اس نے علاقہ جبل کے حاکم کا عدالتی احتساب کرنے کے بجائے اسی وقت علی بن ہشام اور اس کے بھائی حبیب کے قتل کے احکام جاری کردئیے۔ پھر جب دونوں بھائیوں کے جسم خون میں نہا کر ساکت ہوگئے تو مامون الرشید نے نیا حکم جاری کیا۔ علی بن ہشام کا سر نیزے پر بلند کرو اور اسے عراق، خراسان، شام اور مصر کے گلی کوچوں میں پھراؤ۔ جب تمام لوگ یہ عبرت ناک تماشا دیکھ چکیں تو پھر اس ظالم و نافرمان کے سر کو سمندر میں پھینک دو۔
علی بن ہشام کا دورِ جفا کاری چار برسوں پر محیط تھا۔ اس نے 214ھ سے 217ھ تک مخلوقِ خدا پر وہ مظالم ڈھائے کہ جنہیں دیکھ کر سخت دل انسان بھی کانپ اٹھتے تھے۔ یہی وہ پُر آشوب زمانہ تھا جب حضرت جنید بغدادیؒ کے والد محترم جناب محمد نے نم ناک آنکھوں کے ساتھ اپنے آبائی وطن ’’نہاوند‘‘ کو سلامِ آخر کہا اور ہجرت کر کے بغداد پہنچے اور اسی تاریخی شہر میں حضرت جنیدؒ جیسا نابغہ روزگار صوفی پیدا ہوا۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے ایک ایسے خاندان میں آنکھیں کھولیں جس کا بظاہر علم و فضل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر زہد و تقویٰ کو بنیاد بنایا جائے تو اس خاندان میں ایسا کوئی پرہیزگار شخص بھی پیدا نہیں ہوا، جس کے حوالے سے اس گھرانے کو شہرت یا فضیلت تھی۔ آپؒ کے حقیقی ماموں حضرت سری سقطیؒ نہ صرف اپنے عہد کے مشہور صوفی بزرگ تھے، بلکہ آنے والے زمانوں میں بھی آپؒ کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جائے گا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭