عباس ثاقب
سکھبیر نے عقابی نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے سخت لہجے میں حکم دیا۔ ’’دونوں ہاتھ سر سے اوپر اٹھالو۔ کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو چھلنی کر دوں گا‘‘۔
میرے پاس اس کا حکم ماننے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کے تیور بتا رہے تھے کہ جو کچھ کہہ رہا ہے، اس پر عمل کرتے ذرا بھی نہیں جھجکے گا۔ لہٰذا میں نے بلا توقف دونوں ہاتھ اٹھادیئے۔ اس ناگہانی صورتِ حال پر میں تو بھونچکا تھا ہی، مجھ سے زیادہ امر دیپ اور ڈاکٹر چوہان حیران و پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم میں نے خود کو سنبھالنے میں دیر نہیں لگائی اور سکھبیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے ڈاکٹر چوہان کو مخاطب کیا۔ ’’ ڈاکٹر صاحب، آپ کے ہاں مہمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ میں تو سمجھا تھاکہ آپ مجھے دوستوں کے پاس لے جا رہے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر چوہان نے میری بات سن کر شکایتی نظروں سے سکھبیر کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’سکھبیر، یہ ہمارا دشمن نہیں بلکہ کشمیری لڑاکا ہے۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے علاقے میں ہماری طرح ہندو سرکار سے آزادی کے لیے جنگ کر رہا ہے۔ یہ تجویز لے کر آیا ہے کہ جب ہم لوگوں کا دشمن ایک ہے، تو ہم اس کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر جنگ کیوں نہ کریں۔ ایک دوسرے سے تعاون کر کے ہم دشمن کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں‘‘۔
سانس لے کر ڈاکٹر چوہان نے مزیدکچھ کہنا چاہا، لیکن سکھبیر نے بائیں ہاتھ کے اشارے سے اسے بولنے سے روک دیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں جکڑے پستول کی نال کا رخ بدستور میرے سینے کی جانب تھا۔ اس نے بھی مجھے بدستور گھورتے ہوئے بے لچک لہجے میں ڈاکٹر چوہان کو کہا۔ ’’ڈاکٹر جی، آپ سیدھے آدمی ہو، لوگوں پر بھروسا کرنے میں جلد بازی کرجاتے ہو۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ نہرو سرکار ہمارا تیا پانچہ کرنے کے لیے کتنی خطرناک سازشیں رچانے میں مصروف ہے۔ بار بار آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ خفیہ والے مسلسل ہمارے درمیان اپنے جاسوس گھسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر بھی آپ ایک بالکل اجنبی، مشکوک بندے کو ساتھ لگا کر لے آئے‘‘۔
یہ سن کر امر دیپ نے احتجاج کیا۔ ’’بھائی سکھبیر، تمہارا یہ شک بالکل بے بنیاد ہے۔ ذاکر بھائی تو خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نہرو سرکار کے ظلم و ستم کے خلاف کشمیر میں جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔
امر دیپ کی بات سن کر سکھبیر کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔ ’’اس نے آپ لوگوں کو بہت اچھی کہانی سنائی ہے، اور آپ دونوں کو سلام ہے کہ اتنے سیانے ہوکر بھی اس کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کرلیا‘‘۔
اس نے مجھ پر اپنی نظریں جمائے ہوئے اچانک اپنے ساتھی کو آواز دی، جو اس کی دیکھا دیکھی کہیں سے دو نالی شاٹ گن نکال کر مجھے اپنی زد پہ لے چکا تھا۔ ’’شیر دل سیہاں، اس سورما کی تلاشی لو، لیکن بڑی احتیاط سے۔ ان خفیہ والوں کو خاص ٹریننگ دیتے ہیں دلّی والے‘‘۔ اپنے ساتھی کو خبردار کرنے کے بعد اس نے مجھے متنبہ کرنا بھی ضروری سمجھا۔ ’’میری بات غور سے سنو، کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو اچھا نہیں ہوگا۔ مجھے ہرمندر صاحب میں لاش گرانے پر مجبور نہ کرنا‘‘۔
میں نے دھیمے، لیکن مستحکم لہجے میں کہا۔ ’’اگر میرے دل میں چور ہوتا تو شاید اب تک بہت کچھ کر گزرتا، لیکن ہم لوگوں کو بھی تمہاری طرح دشمنوں کے خفیہ حربوں سے بچنے کے لیے بے حد احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ اس لیے میں تم لوگوں کی کیفیت سمجھتا ہوں اور مجھے تمہارا شک دور کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔
اس نے میری بات سن کر ایک طنزیہ قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’تم لوگوں کو کہانیاں اچھی رٹواتے ہیں تمہارے افسر۔ ذرا ٹھہر جاؤ، ابھی سب ناٹک کھل جائے گا تمہارا‘‘۔
اس اثنا میں شیر دل سنگھ میری تلاشی لے کر واسکٹ کی اندرونی جیب سے میرا ریوالور نکال کر اپنے قبضے میں لے چکا تھا۔ ہتھیار پر نظر پڑتے ہی سکھبیر کے چہرے کے تاثرات مزید کرخت ہوگئے۔ اس نے شیر دل کو اپنے پاس بلایا اور پھر اپنا پستول اسے تھماکر مجھے نشانے پر رکھنے کی ہدایت کی اور خود میرے پاس سے برآمد ہونے والے ریوالور کا بغور جائزہ لینے لگا۔ میں نے اسے مخاطب کر کے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’یہ ہتھیار تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے نہیں، اپنی حفاظت کے لیے ساتھ لایا ہوں‘‘۔
میری بات پر توجہ دینے کے بجائے اس نے پہلے ڈاکٹر چوہان اور پھر امر دیپ کی طرف دیکھا اور چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ’’ یہ گن دیکھ رہے ہیں آپ دونوں؟ یہ پوائنٹ تھری ایٹ کا سروس ریوالور ہے۔ اپنے کشمیری مجاہد سے پوچھیں کہ پولیس والوں کا یہ ہتھیار اس کے پاس کیا کر رہا ہے؟‘‘۔
میں نے باری باری ڈاکٹر چوہان اور امر دیپ کے چہروں کا جائزہ لیا۔ یہ سوال سن کر امر دیپ تو صرف کچھ بے تاب سا دکھائی دیا، البتہ ڈاکٹر چوہان واضح طور پر ذہنی الجھن کا شکار دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا یہ ردِ عمل میرے نزدیک کچھ زیادہ تعجب خیز بھی نہیں تھا۔ وہ بہر حال مجھے صرف امر دیپ اور بشن دیپ کے بتائے ہوئے کوائف کی روشنی میں جانتا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭