ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی کے اس خط میں اور اس سے پہلے دلگیر کے خطوں میں نذر سجاد کے جس خط کا ذکر بار بار آیا ہے، وہ بھی قمر زمانی اور دلگیر کے خطوں کے مسودات میں محفوظ ہے۔ یہ خط اردو کے ممتاز انشا پرداز اور افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کی بیگم کا خط ہے۔ نذر سجاد خود بھی اردو کے مشہور ادبیہ تھیں۔ افسوس کے اب وہ بھی مرحومہ ہو چکیں۔ نذر سجاد کا خط دیکھئے۔ یہ نقاد کی جوائنٹ ایڈیٹر قمرزمانی کے نام ہے۔
جاپلنگ رود لکھنؤ
23 اپریل 17ء
پیاری جائنٹ ایڈیٹر صاحبہ نقاد
اب تک تو نقاد کے ناپید ہو جانے کا بے حد افسوس تھا، لیکن آج دو سال بعد قمر زمانی کے ہاتھوں دوبارہ زندگی پائے ہوئے دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ نہ صرف اس امر کی کہ پیارا نقاد زندہ ہوگیا، بلکہ اس کی کہ اب کے وہ ایک روح پرور جان بخش چھوٹے چھوٹے نازک ہاتھوں میں پیدا ہوا اور پرورش پائے گا۔ اسی نقاد نے ہم سے آپ کا تعارف کر دیا، ورنہ اب تک ’’قمر‘‘ بے مثال کی روشنی سے دنیا محروم تھی۔
خود ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہمارے فرقے میں بھی ایک چمکتا ہوا تارہ پوشیدہ ہے، جس کی شعاعیں نقاد کے ذریعہ اب عالم کو منور کریں گی۔
لیکن بھئی میں تو آپ کے گول مول تعارف سے کچھ مطمئن نہیں ہوں۔ لیجئے اب بھلا مجھے کیا پردہ۔ گو آپ سے نہیں، لیکن ہم میاں بیوی کے شاہ دلگیر صاحب سے پرانے مراسم ہیں۔ پس آئیے اور زیادہ نہیں تو مرے برقعہ میں میرے نقاب ہی کے اندر قمر کا چہرہ کر دیجئے، تاکہ اور کوئی نہ دیکھے اور میں دیکھ لوں۔ اچھی طرح پہچان لوں اور رونمائی میں جو کچھ آپ طلب کریں، نقاد کے لئے دے دوں۔ کہو منظور ہے۔ بھئی ہم سے پوشیدہ نہ رہو۔ بے نقاب ہوکر میرے نقاب میں آؤ۔
ہم سے پردہ نہ کرو قمر درخشاں ہوکر
آؤ مل جاؤ گلے اب تو مہربان ہوکر
کیا یہ مناسب ہے کہ ایڈیٹر نقاد پر حد درجہ مہربانی کہ انہیں دنیا سے بے نیاز کر دیا اور ہم سے یہ بے پروائی، کج ادائی و بے مروتی کہ قمر ہو کر بدلی کی آڑ چاہتی ہو۔ نہیں نہیں، یہ نہ ہوگا۔ اس کے جواب میں مفصل حالات کا خط لکھیں کہ آپ آگرہ میں کب سے قیام پذیر ہیں اور اس سے قبل کسی اور زنانہ اخبار وغیرہ میں بھی اس نام سے کچھ لکھتی رہی ہیں یا نہیں۔
یہ نام تو پہلے بھی نظر سے گزرا ہے، لیکن معلوم نہیں کہ وہ آپ ہی تھیں یا کوئی اور۔ امید ہے کہ اس کا جواب ’شاہ دلگیر صاحب‘ شافی لکھوائیں گے، تاکہ پھر مجھے کسی اور سوال کی ضرورت نہ رہے۔ میں آج کل بیمار ہوں۔ آپ کا نقاد خود پڑھ بھی نہ سکی۔ سجاد صاحب سے پڑھواکر سنا اور اب لیٹے لیٹے اپنی بہن سے خط لکھوا کر بھیجتی ہوں۔ جواب ذرا جلدی دینا۔ والسلام
خاکسار
نذر سجاد حیدر
قمر زمانی نے نذر سجاد کے مندرجہ بالا کا درج ذیل جواب دیا۔ یہ خط بھی مسودے میں محفوظ ہے۔
معرفت پوسٹ ماسٹر دہلی
مکان حافظ عزیزالدین نقشبندی
9 مئی 17ء
میری پیاری بہن! میں ان پرشش کا شکریہ کن الفاظ میں ادا کروں۔ معافی چاہتی ہوں کہ جواب اس قدر تاخیر سے جارہا ہے۔ میں اس زمانے میں بعض خانگی معاملات کی وجہ سے سخت پریشان رہی اور اب بھی ہوں۔
جو کچھ نقاد میں ظاہر کیا گیا ہے، وہ درست ہے۔ اس سے قبل آپ نے اگر میرا نام کہیں دیکھا ہے تو وہ میرا نہ ہوگا۔ میرے لئے تو یہ پہلی فرصت اور پہلا موقع ہے کہ پبلک میں اس طرح آئی ہوں۔ کامل دس سال ادب کا مطالعہ کیا اور اب لکھنے لگی۔ کیا برا کیا۔
آپ کو میں جانتی ہوں۔ گر آپ مجھے نہیں جانتی اور نہ جاننے کی کوئی وجہ۔ میں اپنے متعلق اس سے زیادہ کیا لکھوں۔ ایک مصیبت زدہ عورت ہوں اور سخت تباہ۔ خدا آپ کو خوش رکھے کہ دل پرسی فرمائی۔
میں نہ کبھی آگرہ گئی اور نہ اس وقت ہوں۔ میرا پتہ عنوان پر درج ہے۔ اس سے مجھے خطوط ملتے رہتے ہیں۔
بد نصیب
’’قمر‘‘
قمر زمانی نے اپنا خط 11 مئی کو پوسٹ کیا تھا۔ 12 مئی کو دلگیر کو مل گیا۔ اسی دن انہوں نے اس خط کا جواب لکھا اور اطمینان کا سانس لیا۔ دلگیر کا خط دیکھئے:
12 مئی 17ء
پیاری قمر
ابھی ابھی مسیحا نامہ ملا۔ ’’مر رہا تھا، جلا دیا تم نے‘‘
کل مایوس ہوکر ایک اور خط بریلی بھیجا تھا۔ خدا جانے اب اس کا حشر کیا ہوگا۔ اس خط سے قبل 9 مئی کو گیتان جلی بذریعہ رجسٹری (بریلی) روانہ کر چکا ہوں، کاہے کو ملی ہوگی۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ بریلی سے گیتان جلی اور میرا 11 مئی کا خط منگالیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے افسوس ہے کہ آپ ادھر مطمئن نہ رہ سکیں۔ خدا اب اطمینان دے۔
دلی کا نام نہ لیجئے۔ یہ نام سن کر خدا جانے میں کیوں کانپ جاتا ہوں۔ آپ کی بیگانگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ نقاد کا کس کافر کو ہوش رہا۔ آپ کا خط آیا ہے تو نقاد کا کام بھی ہوگا۔ پرچہ لکھا ہوا کب کا تیار رکھا تھا اور آپ کا خط اس سے قبل مل جاتا تو اب تک چھپ کر آپ کے ہاتھ میں ہوتا۔ اس قدر پریشان تھا کہ نقاد بھجوانے کو جی نہ چاہا۔ آج چھپنا شروع ہوگا اور انشاء اللہ تعالی ایک ہفتے کے اندر اندر تیار ہوجائے گا۔
اس تعویق کا ذمہ دار کون ہے۔ یقیناً میں نہیں۔
’’حسن‘‘ کو بہت جلد پورا کر کے بھیج دیجئے کہ تیسرے نمبر کی کتابت اس کے انتظار کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ میں ’’حسن‘‘ کو اس نمبر کا عنوان اولین بنانا چاہتا ہوں۔ اپنی محبت کا واسطہ جلد بھیج دیجئے کہ اس کے لئے ’’نقاد‘‘ کے کتنے صفحے محفوظ رکھے جائیں کہ اس کے آگے کتابت شروع کردوں۔
میں اور آپ سے خفا تمام دنیا ملنے پر بھی ممکن نہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭