حضرت رجاء بن حیوۃؒ:
تابعینؒ کے مبارک دور میں تین لوگ ایسے گزرے ہیں کہ ان کے زمانے میں بھی لوگوں نے ان تین کا کوئی ہم مثل، یعنی ان جیسا نہیں دیکھا۔ حق تعالیٰ نے ان تینوں کو ایسی مبارک صفات عطا فرمائی تھیں کہ ان کا درجہ دوسروں سے بہت اونچا تھا۔ تینوں نے اپنی اپنی جگہوں پر نیکیوں اور بھلائیوں کے کام کئے، گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی گزاری، نہ حق تعالیٰ کا کوئی حکم توڑ کر نافرمانی کرتے تھے، نہ کسی انسان کو تکلیف پہنچاتے تھے۔ دن و رات رب تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی فرماں برداری اور مخلوق خدا کی خدمت میں گزارتے تھے۔ وہ عظیم المرتبت اشخاص یہ ہیں۔
عراق میں محمد بن سیرینؒ۔
حجاز میں قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ۔
اور شام میں رجاء بن حیوۃؒ۔
آئیے! اب ہم آپ کو ان تین برگزیدہ و پسندیدہ شخصیات میں سے حضرت رجاء بن حیوۃؒ کی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں۔
حضرت رجاء بن حیوۃؒ سرزمینِ فلسطین کے بیسان نامی قصبہ میں پیدا ہوئے اور ان کی پیدائش حضرت عثمان بن عفانؓ کی خلافت کے آخری برسوں میں ہوئی۔ عربوں کے اندر ایک مشہور قبیلہ ’’کندہ‘‘ تھا اور اس قبیلے سے ان کا تعلق تھا، اس طرح رجاء بن حیوۃؒ فلسطینی ہیں۔ اصل کے اعتبار سے عربی ہیں اور نسلاً (یعنی قبیلہ کے اعتبار سے کندی ہیں)۔ اس کندی نوجوان نے بچپن ہی سے رب تعالیٰ کی فرماں برداری کرتے ہوئے پرورش پائی، یعنی شروع سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے، والدین کی عزت و احترام کرتے تھے، حق تبارک تعالیٰ نے ان کو دنیا ہی میں یہ بہترین بدلہ عطا فرمایا کہ اپنا محبوب بندہ بنالیا اور جو ان کو دیکھتا وہ بھی ان سے محبت کرتا۔ یہ بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے، رب تعالیٰ نے ان کے دل میں سچی طلب کی وجہ سے ان کو علم سے نوازا۔ چوں کہ انہیں دن اور رات کے ہر لمحہ سب سے بڑی فکر قرآن مجید اور حدیثِ رسولؐ حاصل کرنے کی رہتی، اس لیے رب تعالیٰ نے ان کی فکر و خیالات کو قرآن و حدیث کی روشنی سے روشن کر دیا اور ان کا دل علم و حکمت سے بھر گیا: حق تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’اور جس کو سمجھ ملی اس کو بڑی خوبی ملی۔‘‘ (البقرہ:269)
انہیں اکثر اونچے درجے کے صحابہ کرامؓ سے علم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، جن میں سے حضرت ابو سعید خدریؓ، حضرت ابو دردائؓ، حضرت ابو امامہؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ، حضرت معاویہؓ بن ابوسفیان، حضرت ابن عمرو بن عاصؓ اور حضرت نواس بن سمعانؓ سرِفہرست ہیں۔
یہ بزرگ صحابہ کرامؓ، ان کے لیے ہدایت کے چراغ اور معرفت کی روشنی کے مینار ثابت ہوئے۔ اس خوش نصیب نوجوان نے اپنے لیے زندگی گزارنے کا ایک مقصد متعین کر لیا تھا، اسی پر زندگی بھر چلتے رہے اور اکثر فرمایا کرتے تھے:
’’وہ اسلام کس قدر خوبصورت ہے جو ایمان سے آراستہ ہو۔ وہ ایمان کس قدر خوبصورت ہے جو تقویٰ سے مزین ہو۔ وہ تقویٰ کس قدر حسین ہے جس کے ساتھ علم کا چاند لگا ہوا ہو۔ وہ علم کس قدر بہترین ہے جس کے ساتھ عمل بھی ہو۔ اور وہ عمل کس قدر خوش نما ہے جسے، نرمی نے زینت عطا کی ہو۔‘‘
(نوٹ) حضرت رجاء بن حیوہؒ کے پانچ سنہری فرمان کتنے اہم اور کتنے مبارک ہیں ہمیں بھی چاہئے کہ ہم انہیں اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں اور ان کے مطابق عمل کریں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭