بغداد منتقل ہونے کے بعد بھی حضرت جنید بغدادیؒ کے والد محمدؒ نے اپنا وہی کاروبار جاری رکھا۔ جب حضرت جنیدؒ پانچ چھ سال کے ہوئے تو والد کے حکم سے شیشے کی دکان پر جا کر بیٹھنے لگے۔ اس واقعے سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپؒ کے والد محترم کسی قسم کا علمی ذوق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی ذہنی معراج یہ تھی کہ وہ کسی طرح اپنے بیٹے کو ایک کامیاب دکاندار بنادیں۔
جناب محمدؒ اسی کوشش میں لگے ہوئے تھے، مگر قدرت حضرت جنید بغدادیؒ کے بارے میں کچھ اور فیصلہ کر چکی تھی۔ اہلِ دنیا ظاہر کی آنکھوں سے بس اتنا ہی دیکھ سکتے تھے کہ ایک پانچ، چھ سالہ بچہ شیشے کی دکان پر بیٹھا ہے اور آنے والے خریداروں کے ساتھ بڑی شائشگی اور ذہانت کے ساتھ گفتگو کرتا ہے، مگر کسی کو یہ راز معلوم نہیں تھا کہ اس بچے کا دل آئینے سے بھی زیادہ صاف ہے اور یہی بچہ جوان ہوکر سینکڑوں آئینے تراشے گا، ایسے آئینے کہ جن کی آب و تاب قیامت تک باقی رہے گی۔
ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ اپنے والد محترم کے ساتھ دکان پر بیٹھے تھے کہ آپؒ کے ماموں حضرت سری سقطیؒ تشریف لائے اور اپنے بہنوئی جناب محمد کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’یہ بچہ دکانداری اور تجارت کے لئے پیدا نہیں ہوا ہے۔‘‘
’’پھر آپ ہی بتائیں، یہ بچہ کس کام کیلئے دنیا میں آیا ہے؟‘‘ جناب محمد حضرت سری سقطیؒ جیسے عارف کی بات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے، اس لئے سر سری لہجے میں بولے: ’’یہ دکاندار کا بیٹا ہے، دکاندار ہی بنے گا۔‘‘
’’ یہ کوئی کلیہ نہیں۔‘‘ حضرت سری سطقیؒ نے فرمایا: ’’خدا اپنی قدرت بے مثال کو جس طرح چاہے ظاہر کرے، رب تعالیٰ نے چاہا تو یہ بچہ وہی بنے گا جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔‘‘
جناب محمدؒ نے اپنے برادرِ نسبتی سے بہت حجت کی، مگر حضرت سری سقطیؒ نے ان کا کوئی عذر تسلیم نہیں کیا اور بھانجے کو اپنے گھر لے آئے۔ اب حضرت جنید بغدادیؒ ایک عارفِ وقت کی محبت کے سائے میں پرورش پا رہے تھے۔ حضرت سری سقطیؒ نے حضرت جنیدؒ کو اپنے رنگ میں رنگنا شروع کردیا۔ ابھی صرف ایک ہی سال گزرا تھا کہ حضرت سری سقطیؒ حج کے لئے تشریف لے گئے۔ اس مقدس سفر میں حضرت جنید بغدادیؒ بھی ماموں کے ہمراہ تھے اور آپؒ کی عمر محض سات سال تھی۔
اس سفر کے بارے میں خود حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’’مکہ معظّمہ پہنچنے کے بعد ایک دن ایک مجلس خاص میں حضرت سری سقطیؒ تشریف فرما تھے اور آپؒ کے گرد عارفوں کا ہجوم تھا اور میں ان بزرگوں کے قریب ہی کھیل رہا تھا۔ باتوں باتوں میں یہ مسئلہ چھڑا کہ شکر کیا ہے؟ تمام بزرگوں نے مختلف انداز میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، آخر میں حضرت سری سقطیؒ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:
’’ بیٹا جنید! تم ابھی بتاؤ کہ شکر کسے کہتے ہیں؟‘‘
میں نے جھجکتے ہوئے تمام بزرگوں کی طرف دیکھا اور پھر عرض کیا: ’’خدا کی نعمتیں پا کر اس کی نافرمانی نہ کی جائے، میرے نزدیک اسی کا نام شکر ہے۔‘‘
اس سات سالہ بچے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر تمام بزرگ جھوم اٹھے اور بہت دیر تک حضرت جنید بغدادیؒ کی ذہانت کی تعریف کرتے رہے، پھر جب تمام درویش خاموش ہوگئے تو حضرت سری سقطیؒ نے بھانجے کی طرف دیکھ کر نہایت پُر سوز لہجے میں فرمایا: ’’مجھے یقین ہے کہ تمہیں حق تعالیٰ سے جو فیض پہنچے گا، وہ تمہاری زبان کے ساتھ مخصوص ہوگا۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ جب حضرت جنید بغدادیؒ جوان ہوئے تو ساری دنیا آپؒ کے اعجازِ کلام کی قائل تھی، جب بھی تقریر فرماتے تو پوری مجلس آپؒ کے الفاظ کی تاثیر سے بے حال ہو جاتی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭