طالبان امریکہ کو جاسوسی اڈے نہیں رکھنے دیں گے

قاسم
افغان طالبان نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں سی آئی اے کے دفاتر برقرار رکھنے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی آئی اے کے سیٹ اپ برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سے بہتر باوردی فوج کو قیام کی اجازت دینا ہوگا،کم از کم وہ نظر تو آئیں گے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس افغانستان میں امریکی انٹیلی جنس کے 21 سینٹرز کی معلومات ہیں، اور ان کو بند کرنا پڑے گا۔ ان مراکز کو برقرار رکھنے کی شرط پر مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔ ادھر ماسکو میں بین الافغان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، جن میں طالبان، افغان سیاستدان، سابق جہادی کمانڈر اور تمام اقوام کے نمائندے شریک ہیں۔ تاہم ان مذاکرات میں افغانستان کی تمام اقوام کی نمائندگی سے اشرف غنی حکومت پریشان ہو گئی۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے کہ امریکی فوج نکالنے کے بعد ایران اور دیگر ممالک پر نظر رکھنے کیلئے افغانستان میں سی آئی اے کا سیٹ اپ برقرار رکھا جائے گا، بلکہ اس کو مزید توسیع دی جائے گی۔ ذرائع کے بقول افغان طالبان کے اہم رہنمائوں نے قطر میں موجود اپنی مذاکراتی ٹیم کو آگاہ کر دیا ہے کہ امریکی حکام کو 25 فروری کو ہونے والے مذاکرات میں دو ٹوک انداز میں کہہ دیا جائے کہ طالبان نے افغانستان میں 21 سی آئی اے مراکز کی نشاندہی کی ہے اور ان تمام سینٹرز کو بند کرنا پڑے گا۔ امریکہ کے ساتھ مشروط مذاکرات کیلئے نہ پہلے تیار تھے اور نہ اب ہوں گے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ ایک طرف اپنی فوج نکال کر اس جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور دوسری جانب سی آئی اے کے مراکز بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ درحقیقت سی آئی اے سیٹ اپ کے باعث ہی دنیا بھر میں بدامنی ہے۔ لہذا امریکہ کو سی آئی اے کے مراکز ختم کرنے ہوں گے۔ افغان طالبان کے مطابق انہیں افغانستان میں سی آئی اے کے 21 سینٹرز کے حوالے سے تمام تفصیلات معلوم ہیں، لہذا ان کو ختم کرنا پڑے گا۔ اگر افغانستان سے تمام امریکی افواج کے انخلا اور سی آئی اے سینٹرز ختم کرنے کی بات نہیں مانی گئی تو مذاکرات ختم کر دیئے جائیں گے۔ پڑوسی ممالک کی نگرانی کیلئے جاسوسی کے امریکی اڈے برقرار رکھنے سے افغانستان میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان شاید کچھ معاملات میں امریکہ کو رعایت دے دیتے، لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد اب کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ کیونکہ سی آئی اے سیٹ اپ برقرار رکھنے اور اس میں توسیع کے اعلان سے طالبان کو امریکیوں نیت اور منصوبے کا علم ہوگیا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان اور سابق صدر حامد کرزئی کی قیادت میں چالیس رکنی وفد کے درمیان مذاکرات روس کے دارالحکومت ماسکو میں شروع ہوگئے ہیں۔ طالبان کے وفد کی قیادت ملا عباس استنکزئی کر رہے ہیں۔ جبکہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں چالیس رکنی وفد مذاکرات میں شریک ہے۔ حامد کرزئی پہلی بار طالبان وفد کے ساتھ براہ راست بات چیت کر رہے ہیں، جس میں طالبان کے سابق وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل اور پاکستان میں افغان سفیر ملا ضعیف بھی شامل ہے۔ ان مذاکرات میں ہرات سے جنرل اسماعیل خان، کابل سے استاد سیاف، حنیف اتمر، جمعیت اسلامی کے عطا محمد نور، حزب وحدت کے استاد محقق، سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی اور قبائلی عمائدین شریک ہیں۔ حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات، افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام اور افغان فوج کے حوالے سے طالبان وفد کے قائد عباس استنکزئی کے اس بیان پر بھی بات چیت کریں گے کہ طالبان اقتدار میں آکر فوج کو نئے سرے سے ترتیب دیں گے اور میرٹ پر لوگوں کو منتخب کریں گے۔ کرزئی کا کہنا تھا کہ اس بیان سے موجودہ فوج کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ کیونکہ افغان فوج میں مختلف قوموں کے لوگ شامل ہیں۔ دوسری جانب اس حوالے سے طالبان میڈیا کمیشن کے ذمہ دار اسد افغان نے کہا ہے کہ عباس استنکزئی کا بیان ان کی ذاتی خواہش ہے۔ طالبان شوریٰ نے افغان فوج کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لیکن طالبان اقتدار میں آکر فوج میں تبدیلیاں ضرور کریں گے اور فوج میں جو خواتین بھرتی کی گئی ہیں، انہیں جنگ کے بجائے طبی خدمات کی تربیت دی جائے گی۔ کیونکہ طالبان خواتین کے جنگوں میں حصہ لینے کے خلاف ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار نے تجویز دی ہے کہ طالبان اگر حکومت میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو تمام قومیتوں پر مشتمل وسیع البنیاد حکومت تشکیل دی جائے، جو افغان آئین میں لویہ جرگہ کے ذریعے تبدیلی لائے۔ پھر اس آئین کے تحت انتخابات کرائے جائیں۔ ذرائع کے بقول ماسکو میں جاری بین الافغانی مذاکرات میں کسی بھی ملک کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہے۔ تاہم سابق صدر حامد کرزئی نے افغان حکومت کو تنہا کر دیا ہے۔ لیکن افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ماسکو مذاکرات میں ان کی پارٹی کی نمائندگی عطا محمد نور اور شمالی اتحاد کی نمائندگی یونس قانونی کر رہے ہیں۔ اس لئے انہیں ان مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم اس کے نتائج سے افغان قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ ماسکو میں مذاکرات آج بھی جاری رہیں گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment