شیر شاہی مسجد تحریک ختم نبوت کا گڑھ رہی

احمد خلیل جازم
جامع مسجد بھیرہ کی تاریخی حیثیت تو ثابت شدہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاندان بگویہ نے بھی لازوال خدمات سر انجام دی ہیں۔ جامع مسجد کے خطیب صاحبزادہ ابرار بگوی کا کہنا تھا کہ ’’میری زندگی میں دوسری مرتبہ مسجد کی تزئین نو ہو رہی ہے۔ پہلی مرتبہ 1992ء کے سیلاب کے بعد ہوئی تھی۔ لیکن اس سے قبل کلر، شور اور سیم نے اس مسجد کا حسن بگاڑنا شروع کر دیا تھا۔ رہی سہی کسر سیلاب نے آکر نکال دی۔ اس وقت سیلابی پانی کے بھنور سے مسجد کے صحن میں بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے تھے، جنہیں بعد ازاں بھر کر دوبارہ اینٹیں لگائی گئیں۔ اب انہی اینٹوں کی جگہ ٹائیلیں لگائی جارہی ہیں۔ اس وقت صدیقی ٹرسٹ کراچی نے بہت زیادہ مالی تعاون کیا۔ 1992ء اور پھر 2008ء میں مسجد کے مرکزی حصے، اندرونی اور بیرونی دیواروں کی مرمت، میناروں کی مرمت، صدر دروازے کی مرمت سمیت دو میناروں کے گنبد بنائے گئے۔ اس وقت مسجد کا کل رقبہ 44.75 کنال پر مشتمل ہے، جس میں بیس کنال رقبے پر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ باقی حصے پر طہارت خانہ، لنگر خانہ، دارالقرآن، دارالحدیث اور جنازہ گاہ وغیرہ شامل ہیں‘‘۔ مولانا ابرار کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسجد تین دری ہے اور اس میں کونے کے کمرے موجود ہیں۔ مسجد میں مثلثی ڈاٹ کا گلدستہ اور محراب کا باہر ہونا، موج ہاد اور ڈاٹوں کا ہونا فنی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ موج ہاد ایک فنی اصطلاح ہے، جو دراصل معمار استعمال کرتے ہیں۔ یہ درحقیقت مہاپد کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ گنبد کے اوپر جو کنول کا پھول ہے، اسے موج ہاد کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے بدھ فن تعمیر سے یہ کنول پھول محض خوبصورتی کی غرض سے لے کر بنایا ہے‘‘۔
جامع مسجد کے بارے میں دیگر لوگوں سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ بگوی خاندان نے بھیرہ شہر کے لوگوں اور مسجد کی خدمت میںکوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ یہ مسجد مسلمانوں میں مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہاں کسی کو مسلکی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، اور یہی بات خطیب مسجد نے بھی بتائی کہ ’’مسجد میں کسی مسلک کے شخص کے ساتھ امتیازی سلوک کی ممانعت ہے۔ یہ ممانعت حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے ان الفاظ کی پاسداری ہے، جو آپ نے بگوی خاندان کے حافظ غلام محی الدین بگوی کو اپنے دست مبارک سے سند حدیث کی دستار فضیلت عطا کرتے وقت کہے تھے کہ ’تم سے لوگوں کو بڑا فیض پہنچے گا، مگر وطن جاکر کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے امت میں تفرقہ پیدا ہو‘۔ ایک والی اللہ کی زبان سے نکلی ہوئی بات پوری ہوکر رہتی ہے۔ آج تک مسجد سے ہمیشہ جوڑنے کاکام لیا گیا۔ امت کو توڑنے کی بات کبھی نہیںکی گئی۔ اب بھی مدرسے میں پڑھانے والے اساتذہ مختلف مسالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں دینی علم، قرآن و حدیث کی تعلیم دینے کی اجازت ہے۔ فروعی مسئلہ بیان کرنے کی اجازت نہیںہے‘‘۔ اس حوالے سے بعض باتیں امتیاز احمد نے بھی بتائیں۔ امتیاز احمد بھیرہ کی تاریخ پرگہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ اس بات سے بگوی خاندان سے ناراض بھی رہتے ہیں کہ وہ ہر مسلک کے بندے کے ساتھ احسن سلوک کیوں روا رکھتے ہیں۔ لیکن علمائے بگویہ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ بہرحال انہوں نے مسجد و مدرسے کے پلیٹ فارم سے کبھی فروعی و مسلکی متنازع بات نہیں کی‘‘۔ صاحبزادہ ابرار بگوی سے تقسیم ہند کے دوران جامع مسجد کے کردار کے حوالے سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا ’’بگوی خاندان کے مولانا افتخار احمد بگوی نے مسجد و مدرسہ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کے لیے عملی اور نظریاتی خدمات سر انجام دیں۔ اس وقت یہاں پراچہ اور ٹوانہ خاندانوں کا طوطی بولتا تھا۔ اس کے باوجود مسلم لیگ کے آفس کے قیام کا عمل بھیرہ میں بگوی خاندان کے حصے میں آیا۔ دوسری جانب اگر ختم نبوت کی تحریک دیکھیں تو اس میں بھی اس مسجد و مدرسے کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ 1952ء میں ختم نبوت کی جو تحریک شروع ہوئی، اس میں مولانا افتخار احمد بگوی سمیت، مدرسے کے پندرہ اساتذہ اور مدرسے کے 36 لڑکے گرفتار ہوئے تھے۔ اس زمانے میں خوشاب اور سرگودھا میں ختم نبوت کی تحریک کا گڑھ جامع مسجد بھیرہ ہی کہلائی‘‘۔
شیر شاہی مسجد بھیرہ کے بارے میں ڈاکٹر عمر فاروق نے بھی بعض اہم باتیں بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس مسجد و مدرسے کی ایک قدیم لائبریری بھی ہے، جس میں ہزاروں کی تعداد میںکتب موجود ہیں اور خاص طور پر ڈیڑھ سو کے قریب قلمی نادر نسخے بھی موجود ہیں۔ بھیرہ جاتے ہوئے ڈاکٹر عمر فاروق بھی ہمرا ہ تھے۔ ان کے جاننے والے امتیاز احمد نے بھیرہ کی جامع مسجد سمیت دیگر دو تاریخی مساجد کا دورہ بھی کرایا۔ امتیاز احمد نے جامع مسجد کے بارے میں کچھ ایسی باتیں بھی بتائیں جو صاحبزادہ ابرار بگوی وقت کی قلت کے باعث نہ کر سکے۔ جامع مسجد کے ایک مینار کے بارے میں امتیا زاحمدنے عجیب بات بتائی، کہ ’’مسجد کے بیرونی دروازے کے ساتھ بائیں جانب جو مینار ہے، وہ جنوں والا مینار کہلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مینار پر جنات یا کسی دیگر مخلوق کا بسیرا ہے۔ دراصل اس مینار کے ساتھ نچلی جانب قبرستان تھا۔ چونکہ یہ بیرونی شمالی اور جنوبی مینار مولانا عبدالعزیز بگوی کے دور میں 1906ء میں بنائے گئے، جبکہ مولانا ظہور احمد بگوی کے دور 1923ء سے لے کر 1945ء تک تالاب کے دونوں طرف بارہ دری، پانی کی ٹینکی، مدرسہ کا دارالاقامہ، صدر دروازہ، جنازہ گاہ، دارالعلوم عزیزیہ، ڈیوڑھی اورکتب خانہ وغیرہ کی مرمت اور تعمیرکرائی گئی۔ چنانچہ بیرونی مینار بھی اسی دور میں تعمیر ہوئے۔ اصل مسجد تو تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ باقی کام 1859ء کے بعد ہوا۔ اس مینار کے ساتھ اب بھی قبرستان موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مینار کے نیچے ساتھ ہی ایک بہت بڑے ولی اللہ کی قبر موجود ہے۔ ان کا نام ڈاکٹر احسان الٰہی ہے۔ ڈاکٹر احسان الٰہی نے تقسیم سے قبل بھیرہ شہر میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی تھی۔ مجھے بھی اس مینار کی جانب کھنچائو محسوس ہوتا تھا۔ رات کو تین بجے جی چاہتا کہ میں مسجد اور مینار کی طرف جائوں۔ چنانچہ میں نے صاحبزادہ ابرار سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اس مینار پر جنات کا بسیرا ہے اور اسے جنوں والا مینار کہتے ہیں‘‘۔
اس حوالے سے ابرار بگوی سے تصدیق نہیں ہو سکی کہ ان سے رخصت لے چکے تھے اور ہم اس وقت محلہ پراچگان میں تھے۔ خطیب مسجد اس وقت قریبی گائوں میں کسی کا جنازہ پڑھانے جاچکے تھے۔ امتیاز احمد کا مزید کہنا تھا کہ جامع مسجد بھیرہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں بہت معروف لوگوں کا آنا جانا رہا۔ ان میں امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، قاضی کفایت اللہ محدث دہلوی اور عبدالشکور لکھنوی جیسے علمائے دین جلسوں میں تشریف لاتے رہے۔ حفیظ جالندھری اور مولانا محمد علی جوہر بھی یہاں آچکے ہیں، جن کا میں نے اپنے ایم فل کے تھیسس میں حوالہ بھی دیا ہے۔ بڑے نام ور لوگ یہاں آتے رہے۔ دراصل بگوی خاندان برصغیر پاک و ہند میں عزت کے نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ان کا ایسا روحانی سلسلہ ہے کہ بڑی بڑی ہستیاں اس خاندان کے پاس آتی رہیں۔ دیکھیں، ایک وقت تھا کہ مولانا احمدالدین بگوی اور ان کے بھائی محی الدین بگوی شاہی مسجد لاہور اور جامع مسجد بھیرہ کے خطیب تھے۔ چھ ماہ ایک بھائی شاہی مسجد میں خطابت کرتا تو دوسرا بھیرہ کی جامع مسجد میں خطابت کے جوہر دکھاتا۔ اگلے چھ ماہ پھر دوسرا بھیرہ کی مسجد آجاتا اور پہلا بھائی بادشاہی مسجد چلا جاتا۔ اسی سے اندازہ لگالیںکہ اس خاندان کی بزرگی کا کیا عالم ہوگا۔ جامع مسجد میں بگوی خاندان کی آمد دراصل جامع مسجد بھیرہ کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ بلکہ مسجد شیخاں والی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ جامع مسجد شیخاں بھی قدیم مساجد میں شامل اور آج تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ مسجد شیخاں والی اور مسجد حافظانہ دو ایسی قدیم مساجد ہیں، جن کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بھی شیر شاہ سوری کے دور کی ہیں۔ لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دو مساجد دور جہانگیری اور دور شاہجہانی کی یادگاریں ہیں۔ مولانا قاضی احمدالدین بگوی سب سے پہلے مسجد شیخاں والی میں آئے تھے‘‘۔ ضروری تھا کہ یہ قدیم مسجد بھی دیکھی جائے۔ چنانچہ امتیاز احمد ہماری درخواست پر ہمیں پہلے مسجد حافظانہ لے گئے اور اس کے بعد قدیم مسجد شیخاں والی دیکھی، جو آج بھی سادگی اور پرکاری کے ایسے مقام پر فائز ہے، جس کی مثال کم کم ہی پیش کی جا سکتی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment