نفع بخش سرکاری ادارے کو پرائیوٹائز کرنے کی کوششیں شروع

نمائندہ امت
اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن جیسا منفعت بخش ادارہ جو سالانہ اربوں روپے منافع کماتا ہے، اس کے خلاف سازشوں اور اس کی نجکاری کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس ادارے میں بنیادی اہمیت رکھنے والے سیلز کے نمائندوں نے، جن کی تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہے، ملک بھر میں ہڑتال کر دی ہے۔ جس کا اثر یقیناً اس ادارے کی سالانہ آمدنی پر پڑے گا۔ اسٹیٹ لائف ایسا منفعت بخش ادارہ ہے جس نے گزشتہ مالی سال میں اپنے ملازمین کو مجموعی طور پر 57 ارب روپے بونس دیا۔
ادارے کے قائم مقام چیئرمین محمد یونس ڈھاگہ نے جو وفاقی سیکریٹری تجارت کے عہدے پر فائز ہیں، پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا ہے کہ چار ارب اسی کروڑ روپے کی جعلی کمیشن کی ادائیگی کی گئی، جس سے ادارے کو نقصان ہوا۔ جبکہ پی اے سی کے رکن ممبر قومی اسمبلی، اسٹیٹ لائف کے ایک اعلیٰ افسر اور سی بی اے یونین کا موقف ہے کہ یہ ادائیگیاں قانون کے مطابق ان کارکنوں کو ان کے بزنس لانے کی بنیاد پر کی گئی تھیں۔ اور یہ کہ چیئرمین یونس ڈھاگہ کو جان بوجھ کر غلط بریف کیا گیا، جس کا مقصد اس منفعت بخش ادارے میں غلط فیصلے کرواکر اسے مالی بحران سے دوچار کرنا اور پھر نجکاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ان ذرائع کے مطابق یونس ڈھاگہ نے غلط فیصلوں کا آغاز کر دیا ہے، تاکہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن جس نے گزشتہ سال اپنے ملازمین کو ستاون ارب روپے کا بونس دیا، اسے بحران سے دو چار کر کے نجکاری کی فہرست میں شامل کیا جا سکے۔ ان کے ایک ہی فیصلے کے بعد تین لاکھ افراد ہڑتال پر ہیں اور ادارے کا بزنس اس وقت بند ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں جو میاں شہباز شریف کی زیر صدارت ہوا، دیگر امور کے علاوہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں چار ارب اسی کروڑ روپے کی جعلی ادائیگیوں کا الزام اور اس ادارے کے حکومت کے ساتھ ہیلتھ انشورنس کے ایشو سامنے آئے۔ یونس ڈھاگہ نے ان ادائیگیوں کے بارے میں کہا کہ یہ جعلی ایجنٹوں کو کی گئی تھیں۔ اس پر اجلاس میں موجود پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ملک محمد عامر ڈوگر نے موقف اختیار کیا کہ ہر سال ادارے کے ورکز کو کمیشن دیا جاتا ہے۔ اب ان کے حق پر ڈاکہ ڈال کر اسے ختم کیا جارہا ہے، جس سے ادارے کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ نیز یہ کہ یہ رقم ان ورکرز کو ادارے کی جانب سے ان کی وصول کردہ انشورنس کی رقم پر دی جاتی ہے۔ اب اس کمیشن کے بند ہونے سے لاکھوں ملازمین ہڑتال پر ہیں۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں پی اے سی کے دو ممبران قومی اسمبلی، پی ٹی آئی کے ملک محمد عامر ڈوگر اور متحدہ پاکستان کے اقبال محمد علی خان کے علاوہ اسٹیٹ لائف کارپوریشن کی یونین سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس ادارے کو ایک حکمت عملی کے تحت جان بوجھ کر کرپٹ ثابت کرکے اس کی نجکاری کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اسٹیٹ لائف کے ایک انتہائی اعلیٰ عہدے پر فائز ایک افسر نے بھی دبے لفظوں میں ان کوششوں کی تصدیق کی۔ لیکن اس بارے میں ٹیلی فون پر مزید بات کرنے سے معذرت کرلی۔
رکن قومی اسمبلی ملک محمد عامر ڈوگر کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’اسٹیٹ لائف میں بنیادی کردار، اس کے ورکر ہوتے ہیں جو فیلڈ میں کام کرکے لوگوں کو انشورنس کی افادیت سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کو قائل کرکے ان کو پالیسی فروخت کرتے ہیں اور اس پالیسی سے انہیںکمیشن ملتا ہے۔ اس کمیشن پر بھی وہ بارہ فیصد ٹیکس ادا کرنے کے بعد اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اب اسی کمیشن کو ’’جعلی کمیشن‘‘ کہہ کر اسے کرپشن کہا جارہا ہے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’غالباً یونس ڈھاگہ کو غلط بریف کیا گیا ہے اور وہ اصل صورت حال سے واقف نہیں ہیں۔ جو لوگ بزنس لاتے ہیں، کمیشن ان کا حق ہے۔ اس منفعت بخش ادارے کی نجکاری کی کوشش کی جارہی ہے۔ ورکرز کی ہڑتال سے بزنس نیچے آئے گا اور مالی خسارہ ہوگا‘‘۔ ملک عامر ڈوگر نے مزید کہا کہ ’’ورکرز کی ہڑتال سے یقیناً ادارے کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ یونس ڈھاگہ کو چاہئے کہ وہ ورکرز کا موقف بھی سنیں اور جو غلط انتظامی فیصلے ہورہے ہیں، ان کو واپس لیں۔ کیونکہ سیلز آفیسرز کا عہدہ ختم کرنے سے ادارے میں موجود بے چینی سے کام شدید متاثر ہوگا اور پوری ٹیم کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ یہ ادارے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی سازش ہے، جو کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
اسٹیٹ لائف سی بی اے یونین لاہور کے جنرل سیکریٹری اشفاق جاوید کا کہنا تھا کہ ’’اسٹیٹ لائف کی بنیاد فیلڈ ورکرز ہیں، جن کو ایس آر (Sales Representative) کہا جاتا ہے۔ یہی لوگ بزنس لاتے ہیں جن کی تعداد ڈھائی سے تین لاکھ ہے۔ انہی افراد کو ان کے بزنس پر 1972ء سے رائج قانونی طریقہ کار کے مطابق کمیشن دیا گیا۔ چیئرمین صاحب کو غلط بریفنگ دی گئی، جس پر انہوں نے بعض غلط انتظامی فیصلے کئے، جس کی وجہ سے یہ تین لاکھ ورکرز اب ہڑتال پر ہیں۔ اس کا یقینی اثر ادارے کے سالانہ بزنس پر پڑے گا۔ اب اسٹیٹ لائف کو بھی دیگر نجی انشورنس کمپنیوں کے برابر لانے کی سازش ہو رہی ہے، تاکہ اس کی نجکاری کی جائے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment