ڈیری اور پولٹری صنعت میں اسٹرائیڈز کا استعمال کینسر پھیلا رہا ہے

محمد زبیر خان
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیری اور پولٹری صنعت میں اسٹرائیڈز (Steroids ) کا استعمال کینسر کے پھیلائو کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال ایک لاکھ پچاس ہزار افراد اس موذی مرض کا شکار بنے، جن میں 38 فیصد خواتین بریسٹ کینسر میں مبتلا پائی گئیں۔ طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس خطرناک صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو بریسٹ کینسر کی شکار خواتین کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ کینسر کی روک تھام اور اس مرض کے شکار لوگوں کی بہبود کیلئے کام کرنے والی ’’پنک ربن‘‘ نامی تنظیم کے مطابق اٹھارہ سے بیس سال کی لڑکیوں کو بھی یہ مرض لاحق ہورہا ہے اور اس کی ایک وجہ دودھ دینے والے جانور یعنی گائیں، بھینسوں اور مرغیوںکو اسٹرائیڈز کا دیا جانا ہے۔ اس کی وجہ سے ہارمونل عدم توازن بڑھتا ہے، جو بالآخر بریسٹ کینسر کا سبب بنتا ہے۔
کینسر کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے مطابق پاکستان میں کینسر کا مرض شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2018ء میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار افراد اس مہلک مرض کا شکا ر ہوئے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں مختلف اقسام کے کینسر پھیل رہے ہیں۔ لیکن بریسٹ کینسر کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کینسر کے خلاف کام کرنے والی تنظیم پنک ربن (pink ribbon) کے مطابق گزشتہ برس مجموعی طور پر ملک میں کینسر کے ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب مریض تھے، جس میں 38.5 فیصد چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ ہر نویں خاتون اس کا شکار ہو سکتی ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر ایک کروڑ بیس لاکھ خواتین کو کینسر کا خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق مختلف علاقوں میں مختلف اقسام کے کینسر پھیل رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے منسلک ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ steroid کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، جو کینسر میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ دیگر شہروں میں گٹکا، پان، ماوا، مین پوری اور چھالیہ کھانے کی وجہ سے گلے کا کینسر بھی بڑھ رہا ہے۔ جبکہ تمباکو نوشی اور آلودگی بھی کینسر کا سبب ہیں۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر کیلئے کام کرنے والی تنظیم پِنک ربن کے چیف ایگزیکٹو عمر آفتاب کے مطابق ایشیائی ممالک میں پاکستان میں چھاتی کا کینسر سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر 9 خواتین میں سے ایک کو بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔ عمر آفتاب کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین کے بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے اور یہ تعداد اسلام آباد کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واحد کینسر ہے، جس کی تشخیص جلد ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی علامات بیرونی ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بریسٹ کینسر کو جنسیت سے جوڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی خاتون ان علامات کو جان بھی لیتی ہے تو وہ اپنے خاندان والوں کو نہیں بتاتی۔ اگر اہل خانہ کو علم بھی ہوجائے تو وہ اس مرض کو باعث شرم سمجھتے ہیں اور علاج نہیں کراتے۔ یہ کینسر جب اگلے اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو اس کا علاج بہت مہنگا ہو جاتا ہے۔ عمر آفتاب کے مطابق بریسٹ کینسر کا خطرہ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں پریشان کن صورتحال یہ ہے کہ اٹھارہ سے بیس سال کی لڑکیاں اس سرطان میں زیادہ مبتلا ہورہی ہیں۔ اس عمر میں کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر کی شکار نوجوان لڑکیوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ پاکستان میں کینسر کے مریض رجسٹرڈ نہیں کئے جاتے۔ پنک ربن کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کینسر رجسٹری بنائی جائے اور تمام سرکاری و نجی اسپتالوں سے کینسر کے مریضوں کے اعداد و شمار جمع کئے جائیں۔ اس سے معلوم ہو سکے گا کہ کس قسم کا کینسر کس عمر میں زیادہ ہوتا ہے اور کون سا کینسر بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد ہی کینسر کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں کئی ممالک ہیں جہاں بریسٹ کینسر کے مریض پاکستان سے زیادہ ہیں، لیکن شرح اموات پاکستان میں زیادہ ہے، جس کی وجہ بروقت علاج نہ ہونا ہے۔ کینسر کا شکار 70 فیصد خواتین مرض کی تیسری یا چوتھی اسٹیج پر ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر سے ہونے والی اموات یا اس مہلک مرض میں مبتلا خواتین کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یہاں ہر سال کم از کم 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے سبب موت کا شکار ہوتی ہیں۔ تاہم یہ تعداد اصل سے کہیں کم ہے کیونکہ کینسر رجسٹری نہ ہونے کی وجہ سے اصل تعداد کا علم نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے کینسر کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment