تثلیث سے توحید تک

مزید اطمینان کی خاصر میں نے پیغمبر اسلامؐ اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا، تو یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکی مصنّفین کے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس حضور نبی کریمؐ نوع انسان کے عظیم محسن اور سچے خیر خواہ ہیں۔ خصوصاً انہوں نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا، اس کی پہلے یا بعد میں کوئی مثال نظر نہیں آتی… ماحول کی مجبوریوں کی بات دوسری ہے، ورنہ میں بہت شرمیلی ہوں اور خاوند کے سوا کسی مرد سے بے تکلفی پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ جب میں نے پڑھا کہ پیغمبرؐ اسلام خود بھی بے حد حیادار تھے اور خصوصاً عورتوں کے لئے عفت و پاکیزگی اور حیا کی تاکید کرتے ہیں تو میں بہت متاثر ہوئی اور اسے عورت کی ضرورت اور نفسیات کے عین مطابق پایا۔
پھر حضور اقدسؐ نے عورت کا درجہ جس درجہ بلند فرمایا، اس کا اندازہ اس قول سے ہوا کہ ’’جنت ماں کے قدموں میں ہے‘‘ اور آپؐ کے اس فرمان پر تو میں جھوم اُٹھی کہ ’’عورت نازک آبگینوں کی طرح ہے اور تم میں سے سب سے اچھا شخص وہ ہے، جو اپنی بیوی اور گھر والوں سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘
قرآن اور بیغمبر اسلامؐ کی تعلیمات سے میں مطمئن ہوگئی اور تاریخ اسلام کے مطالعے اور اپنے مسلمان کلاس فیلو نوجوانوں کے کردار نے مسلمانوں کے بارے میں ساری غلط فہمیوں کو دور کر دیا اور میرے ضمیر کو میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے تو میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا ذکر میں نے متذکرہ طالب علموں سے کیا، تو وہ 21 مئی 77ء کو میرے تھے۔ جنانچہ میں نے ان سے چند مزید سوالات کئے اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرئہ اسلام میں داخل ہو گئی۔
میرا قبول اسلام پر پورے خاندان پر گویا بجلی گر پڑی۔ ہمارے میاں بیوی کے تعلقات واقعی مثالی تھے اور میرا شوہر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا، مگر میرے قبولِ اسلام کا سن کر اسے غیر معمولی صدمہ ہوا۔ میں سے پہلے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی اور اب پھر سمجھانے کی بہت سعی کی، مگر اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہ ہوا اور اس نے مجھ سے علیحدگی اختیار کرلی اور میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ عارضی طور پر دونوں بچوں کی پرورش میری ذمہ داری قرار پائی۔
میرے والد بھی مجھ سے گہری قلبی وابستگی رکھتے تھے، مگر اس خبر سے وہ بھی بے حد برافروختہ ہوئے اور غصے میں ڈبل بیرل شاٹ گن لے کر میرے گھر آگئے تاکہ مجھے قتل کر ڈالیں… مگر خدا کا شکر ہے کہ میں بچ گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے قطع تعلق کے کے چلے گئے۔
میری بڑی بہن ماہرِ نفسیات تھی، اس نے اعلان کر دیا کہ یہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہوگئی ہے اور اس نے سنجیدگی سے مجھے نفسیاتی انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرانے کے لئے دوڑ دھوپ شروع کردی۔ میری تعلیم مکمل ہوچکی تھی۔ میں نے معاشی ضرورتوں کے پیش نظر ایک دفتر میں ملازمت حاصل کی، لیکن ایک روز میری گاڑی کو حادثہ پیش آگیا اور تھوڑی سی تاخیر ہوگئی تو مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ فرم والوں کے نزدیک میرا اصل جرم یہی تھا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی حالت یہ تھی کہ میرا ایک بچہ پیدائشی طور پر معذور تھا۔ وہ دماغی طور پر بھی نارمل نہ تھا اور اس کی صحت بھی ٹھیک نہ تھی۔ جبکہ بچوں کی تحویل اور طلاق کے مقدمے کے باعث امریکی قانون کے تحت مقدمے کے فیصلے تک میری ساری جمع پونجی منجمد کردی گئی تھی۔ ملازمت بھی ختم ہوئی تو میں بہت گھبرائی اور بے اختیار رب جلیل کے سامنے سربسجود ہوگئی اور گڑ گڑا کر خود دعائیں کیں۔ میرے رب نے میری دعائیں قبول کیں اور دوسرے ہی روز ایک جاننے والی خاتون کے توسط سے مجھے ایسٹرسیل میں ملازمت مل گئی۔ اور میرے معذور بیٹے کا علاج بھی بلا معاوضہ ہونے لگا۔ ڈاکٹروں نے دماغ کے آپریشن کا فیصلہ کیا اور خدا کے خاص فضل سے یہ سرجری کامیاب رہی۔ بچہ تندرست ہوگیا اور میری جان میں جان آئی۔(جاری ہے)

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment