حضرت سعد الاسودؓ بڑے کالے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک نازک دل اور حسین سیرت عطا فرمائی تھی، حسن ظاہری سے محروم تھے۔ اتنے کالے تھے کہ نام کے ساتھ اسود (کلوا) جڑ گیا تھا۔ اس کم روئی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی بھی شادی ہو۔ ایک دن انہوں نے رسول اقدسؐ سے درخواست کی ’’حضور! میرے رنگ روپ کی وجہ سے کوئی میری شادی اپنی لڑکی سے کرنے کو تیار نہیں ہے‘‘ رسول اقدسؐ نے حضرت عمرؓ بن وہب ثقفی کی خوب صورت لڑکی سے ان کی شادی کروا دی۔
ایسی نایاب دولت کو پاکر سعدؓ پھولے نہ سماتے تھے۔ دلہن سے ملنے کا انتہائی اشتیاق تھا۔ دل میں پیار کا طوفان چھپائے بازار گئے کہ کچھ تحائف خرید کر لائیں، جو پہلی ملاقات میں بیوی کی نذر کریں۔ یہ بازار میں تھے کہ ایک منادی کی آواز سنی:
’’اے خدا کے شہسوارو! جہاد کے لیے سوار ہو جائو اور جنت کی خوش خبری سنو۔‘‘
اس اعلان کو سن کر سعدؓ بڑی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ ایک طرف حسین دلہن سے ملنے کا اشتیاق تھا، دوسری طرف رسول اقدسؐ کی محبت اور حفاظت کا تقاضا تھا۔ آخر خدا اور رسولؐ کی محبت غالب آئی جو پیسے دلہن کے لیے تحفے خریدنے کے لیے تھے، ان سے عمامہ، تلوار، نیزہ اور گھوڑا خرید کر میدان کارزار میں جا پہنچے۔
رسول اکرمؐ کی مدافعت میں سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ میدان میں گھوڑا دوڑاتے پھرتے تھے، جب گھوڑا تھک گیا تو آستین چڑھا کر پیدل ہی دشمن کے مقابلے پر ڈٹ گئے۔ رسول اکرمؐ نے ان کے سیاہ ہاتھ دیکھے تو پہچان کر آواز دی: ’’سعد! ادھر آئو‘‘
مگر یہ شوق شہادت کے نشے میں سرشار، رسول اکرمؐ کی حفاظت میں سر نچھاور کرنے کو تیار، ایسے مہنمک تھے کہ انہیں کچھ خبر نہ ہوئی۔ آخر اسی طرح جنگ کرتے ہوئے دل میں عشق و محبت کا طوفان لیے شہید ہوگئے۔ (اسد الغابہ جلد اول)
٭٭٭٭٭