ایک آدمی نے طوطا رکھا ہوا تھا۔ طوطا باتیں کرتا تھا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں دور کے سفر پر جارہاہوں، وہاں سے کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا۔ طوطے نے کہا کہ وہاں تو طوطوں کا جنگل ہے، وہاں ہمارے گرو رہتے ہیں، ہمارے ساتھی رہتے ہیں، وہاں جانا اور گرو طوطے کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ ایک غلام طوطا، پنجرے میں رہنے والا، غلامی میں پابند، پابند ِ قفس، آپ کے آزاد طوطوں کو سلام کرتا ہے۔
سوداگر وہاں پہنچا اور اس نے جا کر یہ پیغام دیا۔ اچانک جنگل میں پھڑپھڑ کی آواز آئی، ایک طوطا گِرا، دوسرا گِرا اور پھر سارا جنگل ہی مر گیا۔ سوداگر بڑا حیران کہ یہ پیغام کیا تھا، قیامت ہی تھی۔ اداس ہوکے چلا آیا۔
واپسی پر طوطے نے پوچھا کہ کیا میرا سلام دیا تھا؟ اس نے کہا کہ بڑی اداس بات ہے، سلام تو میں نے پہنچا دیا، مگر تیرا گرو مر گیا اور سارے چیلے بھی مر گئے۔ اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی مر گیا۔ سوداگر کو بڑا افسوس ہوا۔ اس نے مردہ طوطے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ طوطا فوراً اڑ گیا اور شاخ پر بیٹھ گیا۔
اس نے پوچھا یہ کیا؟ طوطے نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے گرو طوطے سے پوچھا تھا کہ پنجرے سے بچنے کا طریقہ بتا۔ اس نے کہا کہ مرنے سے پہلے مر جا اور جب میں مرنے سے پہلے مر گیا تو پنجرے سے بچ گیا۔
درس حیات:
ایک حدیث میں بھی ہے کہ ’’مرنے سے پہلے مر جاؤ۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس کی وضاحت مانگی تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اپنے نفس کو مار دو قبل اس کے کہ تم مرجائو۔‘‘
چڑیا کی نصیحت
ایک شخص نے چڑیاپکڑنے کے لئے جال بچھایا۔ اتفاق سے ایک چڑیااس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑلیا۔ چڑیانے اس سے کہا۔ اسے انسان! تم نے کئی ہرن، بکرے اورمرغ وغیرہ کھاتے ہیں، ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیا حقیقت۔ ذراسا گوشت میرے جسم میں ہے، اس سے تمہارا کیا بنے گا؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا۔ لیکن اگرتم مجھے آزادکردو تو میں تمہیں تین نصیحتیں کروں گی، جن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہوگا۔ ان میں سے ایک نصیحت تو میں ابھی کروں گی۔ جبکہ دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑدو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی۔ اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی، جب دیوار سے اڑکر سامنے درخت کی شاخ پرجا بیٹھوں گی۔
اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے۔ اس نے چڑیاکی بات مانتے ہوئے اس سے پوچھا: تم مجھے پہلی نصیحت کرو، پھر میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ چڑیا نے کہا: میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ ’’جو بات کبھی نہیں ہو سکتی، اس کا یقین مت کرنا۔‘‘ یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا اور وہ سامنے دیوار پر جا بیٹھی پھر بولی: میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ ’’جو ہو جائے، اس کاغم نہ کرنا‘‘ اور پھر کہنے لگی: ’’اے بھلے مانس، تم نے مجھے چھوڑ کربہت بڑی غلطی کی، کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھرہے۔ اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو اس کے فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ہوتی کہ تم بہت بڑے رئیس بن جاتے۔‘‘
اس شخص نے جو یہ بات سنی تو لگا افسوس کرنے۔ اور پچھتایا کہ اس نے چڑیا کو چھوڑ کر اپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی۔ اگر اسے نہ چھوڑتا تو میری زندگی سنور جاتی۔ چڑیا نے اسے اس طرح سوچ میں پڑے دیکھا تو اڑکر درخت کی شاخ پرجا بیٹھی اور بولی: اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی، جسے تم بھول گئے کہ جو بات نہ ہوسکنے والی ہو، اس کا ہرگز یقین نہ کرنا۔ لیکن تم نے میری اس بات کا اعتبار کرلیا کہ میں چھٹانک بھر وزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں پاؤ وزن کاموتی رکھتی ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ جو بات ہوجائے، اس کا غم نہ کرنا۔ مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور غم و افسوس میں مبتلا ہوگئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا۔ تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنا بالکل بے کار ہے۔
تم نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو تیسری پرکرو گے۔ تم نصیحت کے قابل نہیں۔ یہ کہتے ہوئے چڑیا پھر سے اڑی اور ہوا میں پرواز کرگئی۔ وہ شخص وہیں کھڑا چڑیا کی باتوں پرغور وفکر کرتے ہوئے سوچوں میں کھوگیا۔
درس حیات: وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کوئی نصیحت کرنے والاہو۔ ہم اکثر اپنے مخلص ساتھیوں اور بزرگوں کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرتے اور اس میں نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے۔ یہ نصیحتیں صرف کہنے کی باتیں نہیں، بلکہ دانائی اور دوسروں کے تجربات سے حاصل ہونے والے انمول اثاثے ہیں۔ جو یقینا ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں اگرہم ان پر عمل کریں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭