حکایات مولانا رومی

برائی کی جڑ
ایک آدمی دِن رات مخلوقِ خُدا کو اذیّت دینے کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا۔ ایک دن اسے شرارت سُوجھی۔ اس نے اپنے گھر کے سامنے راستے میں لمبے لمبے کانٹوں والی ایک جھاڑی لگا دی۔ چند دنوں کے اندر اندر جھاڑی خاصی بڑھ گئی۔ ہر چند لوگ اس بچ بچا کر نکلتے۔ لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی کانٹا پاؤں کو زخمی کر دیتا اور کسی کا دامن تار تارکر دیتا۔
لوگوں نے اس بہت ملامت کیا کہ تُو نے اپنے گھر کے سامنے یہ جھاڑی کیوں اُگنے دی۔ اب تو تکلیف کی انتہا ہو چکی ہے۔ اسے اکھیڑ دے۔ اس نے مسکرا کر بڑی نرمی سے جواب دیا کہ ٹھیک ہے اکھیڑ دوں گا۔
چند دن پھر اسی طرح گزر گئے۔ یہاں تک کہ اب جھاڑی نے آدھا راستہ گھیر لیا۔ لوگوں نے مجبور ہو کر حاکمِ وقت کو اس کی شکایت کی۔ اُس نے فوراً اس شخص کو بُلایا۔ اسے بُرا بھلا کہا۔ پھر سختی سے حکم دیا کہ ابھی جا کر جاڑی کو اُکھاڑ دے۔
اس نے عرض کیا: ابھی حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔ وہ حاکمِ وقت سے وعدہ کر کے چلا آیا۔ اس نے جھاڑی پھر بھی نہ اُکھیڑی۔ اگر کوئی اسے اس طرف توجہ دلاتا تُو کہہ دیتا کہ آج فرصت نہیں، کل یہ کام کر دوں گا۔ اسی کل کل پر ٹالنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن جھاڑی اتنی بڑھ گئی کہ اب اس کا ہٹانا آسان نہ رہا۔ یہ درخت مضبوط ہو گیا اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہو گئیں کہ پھر وہ ظالم اس کو اکھیڑ نے سے عاجز ہوگیا۔ درخت جوان ہو گیا اور اس کو اکھاڑ نے والا کمزور ہوتا گیا۔
درسِ حیات:
٭ اسی طرح ہماری بُری عادتیں اور گناہ کے کام ہیں۔ ان کی اصلاح میں جس قدر دیر کی جائے گی۔ اِن کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جائیں گی۔ برائی کو دُور کرنے میں سُستی سے کام مت لے۔ ہر بُری عادت کو خاردار جھاڑی سمجھ۔
اے! بے حس کاہل اُٹھ اور اپنی پرانی بُری عادتوں کی اصلاح کے لئے تلوار اٹھا اور مردانہ وار حملہ کر اور مثلِ حضرت علیؓ کے اس دروازئہ خیبر کو اکھاڑ دے۔
نفس ِ اَمارہ کی دیوار
ندی کے کنارے ایک اونچی دیوار بنی ہوئی تھی اور اس دیوار کے اُوپر ایک پیاسا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ پیاس کی شدت سے اس کی جان لبوں پر آئی ہوئی تھی، بداوسان دیوار پر بیٹھا پانی کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا…
اس کے اور پانی کے مابین دیوار کی بلندی حائل اور مانع تھی۔
بر لب جوبو دیوار بلند
بر سر دیوار تشنہ درد مند
پیاس سے بے قرار ہو کر اور کچھ نہ سوجھا تو دیوار سے اینٹ اکھاڑ کر ندی میں پھینکی۔ اینٹ کے گرنے سے جو پانی کی آواز آئی تو اس کی بڑی فرحت محسوس ہوئی اور ایسی سریلی لگی کہ اس پر ہزار جان سے عاشق ہوگیا۔
اس آواز نے اس کے جان و جگر میں شراب کی مستی پیدا کردی۔ اس نے دوسری اینٹ اُکھاڑی اور پانی میں پھینک دی۔ اس مرتبہ آواز پہلے سے بھی زیادہ دلفریب اور جان نواز معلوم ہوئی، پیاسے کو اس قدر لطف آیا کہ دیوانہ وار دیوار سے اینٹیں اکھاڑ اکھاڑ کر ندی میں پھینکنے لگا۔
پانی نے زبان حال سے کہا: ارے شریف آدمی مجھے اینٹیں مارنے سے تجھے کیا نفلوں کا ثواب مل رہا ہے؟ اس فضول کی مشقت سے باز آ۔ اس میں تمہارا کیا فائدہ ہے۔ تشنہ لب نے یوں جواب دیا: اے ندی کے شیریں اور ٹھنڈے پانی! اس میں میرے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ اینٹ پھینکنے کے بعد آواز آتی ہے تو اس سے میرے تن مردہ میں جان پڑ جاتی ہے، یہ معمولی آواز میرے لئے دنیا کے بہترین ساز کی آواز سے بھی دلفریب اور سُریلی ہے۔ پیاسوں کے لئے یہ آواز مثلِ سازِ خوش آواز ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس دیوار کی جتنی اینٹیں اکھاڑ کر ندی میں پھینکنا جاتا ہوں، اسی قدر پانی سے قرب بڑھتا جا رہا ہے اور دیوار کے گرانے سے جوں جوں فاصلہ کم ہوتا جا رہا ہے، محبوب سے وصل کا لمحہ قریب آتا جا رہا ہے۔
’’صلائے عام ہے یاران نقطہ داں کے لئے‘‘
جب تک تیرے نفسِ اَمارہ کی دیوار سر اُٹھا کر کھڑی ہے، وہ سجدہ ادا کرنے میں مانع رہے گی۔
ہمیں غنیمت واں جوانی اے پسر
سر فرود اور بکن خشت و مدر
درسِ حیات:
٭ اے عزیزم! اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھ، حق تعالیٰ کے حضور میں جھک جا اور نفس امارہ کی دیوار کے ڈھیلوں اور اینٹوں کو اکھیڑ ڈال۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment