پرویز خٹک اور عاطف خان بھی خطرے کی تلوار لٹک گئی

امت رپورٹ
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے تحریک انصاف کے رہنما اور سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے بعد حکمراں جماعت کے بعض دیگر رہنمائوں پر بھی خطرے کی تلوار لٹک گئی ہے۔ ان میں پرویز خٹک اور عاطف خان شامل ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی علیم خان کی اچانک گرفتاری کے مختلف پس پردہ محرکات بیان کئے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ علیم خان کی گرفتاری کے حوالے سے نیب نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ سینئر صوبائی وزیر کو مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزم نے پارک ویو کوآپریٹنگ ہائوسنگ سوسائٹی کے سیکریٹری اور رکن صوبائی اسمبلی کے طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ اور اس کی بدولت پاکستان اور بیرون ملک آمدنی سے زیادہ اثاثے بنائے۔
علیم خان کی گرفتاری کے حوالے سے ان کے ایک قریبی ذریعے کے بقول اہم بات یہ ہے کہ دیکھنا ہوگا۔ ’’یہ پتھر اندر سے آیا ہے یا باہر سے آیا ہے‘‘۔ یعنی گرفتاری پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی رضامندی سے ہوئی یا بلا امتیاز احتساب کی حامی قوتوں نے رول ادا کیا ہے۔ ذریعے کے مطابق اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ’’پتھر اگرچہ اندر سے آیا ہے، لیکن باہر والوں کے کہنے پر آیا‘‘۔ یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کو دبائو میں یہ قدم اٹھانا پڑا، اور اس کے دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اصل قوتیں احتسابی عمل کو بلاامتیاز ثابت کرنا یا بیلنس کرنا چاہتی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ این آر او نہ دینے کی رٹ لگانے والی حکومت کے پیچ کسنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع ان زیر بحث مختلف پہلوئوں کے بیشتر حصوں سے اتفاق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ علیم خان کی گرفتاری کا مقصد احتساب کو غیر جانبدار ثابت کرنا اور نون لیگی رہنمائوں کی گرفتاریوں کو بیلنس کرنا ہے۔ جبکہ اس گرفتاری سے مزید بڑی گرفتاریوں کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں آصف زرداری سمیت چند بڑے ناموں کے خلاف بھی نیب کی جانب سے اسی نوعیت کاایکشن متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق بیلنس کئے بغیر آصف زرداری جیسے بڑے نام پر ہاتھ ڈالنے سے بالخصوص سندھ میں احتجاج اور سندھ کارڈ کھیلے جانے کا خدشہ تھا۔ اس حوالے سے مرتب کی جانے والی اسسمنٹ رپورٹس میں بھی یہ نشاندہی کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری کی گرفتاری میں تاخیر ہوئی۔ لیکن یہ کارروائی ملتوی کی گئی ہے، منسوخ نہیں۔ کیونکہ آصف زرداری کی گرفتاری کو منسوخ کرنا افورڈ نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع کے مطابق کارروائی کا اختیار رکھنے والی قوتوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے قریبی ساتھی اور سینئر حکومتی وزیر کی گرفتاری کے بعد اب آصف زرداری پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو پیپلز پارٹی امتیازی سلوک کا واویلا یا سندھ کارڈ نہیں کھیل سکے گی۔ علیم خان کی گرفتاری سے نیب کے پاس یہ ٹھوس جواز آگیا ہے کہ وہ کسی ایک پارٹی یا صوبے کے لوگوں کو نشانہ نہیں بنارہا ہے۔ علیم خان کی گرفتاری کے تناظر میں اپنے اس بیانیے کو آگے بڑھانے کا اشارہ نیب نے دے بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’نیب بہتر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات انجام دے رہا ہے، جس میں پسند و ناپسند کا تصور نہیں‘‘۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ علیم خان کی گرفتاری سے ہونے والی شروعات نہ صرف آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بلکہ حمزہ شہباز کی گرفتاری تک پہنچیں گی۔ ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حکومت اس گرفتاری پر خوش نہیں، لیکن ’’مجبور‘‘ پی ٹی آئی قیادت کے پاس اس فیصلے کو تسلیم کئے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ احتساب میں بیلنس لانے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے علیم خان کی قربانی دینی پڑی۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ امتیازی احتساب کے تاثر کو اور کم کرنے کے لئے پی ٹی آئی حکومت سے مزید قربانیاں مانگی جائیں گی۔ لہٰذا مستقبل قریب میں پارٹی کے چند ایسے سینئر رہنمائوں کی گرفتاریاں بھی متوقع ہیں، جن کے خلاف نیب نے انکوائریاں شروع کر رکھی ہیں۔ ان کارروائیوں کے ذریعے حکومت کو یہ پیغام بھی دیا جائے گا کہ، جب وہ خود کسی کو این آر او دینے کے حق میں نہیں تو پھر حکومتی رہنما بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔
ادھر علیم خان کی گرفتاری کا ایک اور پہلو بیان کرتے ہوئے بی بی سی نے سوال اٹھایا ہے کہ سینئر وزیر کے خلاف کارروائی فیض آباد دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش تو نہیں؟ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے، جنہوں نے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس سوال کو تقویت دینے کے لئے برطانوی نشریاتی ادارے نے چند اینکرز اور دیگر ٹوئٹر صارفین کی ٹوئٹ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ان ٹوئٹس میں کئے جانے والے دعووں کا لب لباب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خبر کو علیم خان کی گرفتاری کی نیوز تلے دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔
علیم خان کی گرفتاری کے محرکات پر بحث کا سلسلہ تو اپنی جگہ چلتا رہے گا، تاہم سینئر وزیر کے خلاف کارروائی نے تحریک انصاف میں ہلچل پیدا کردی ہے اور بالخصوص نیب کے زیر تفتیش رہنمائوں میں خوف پھیل گیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی کے بیشتر وزرا اور اہم رہنمائوں کے لئے علیم خان کی گرفتاری غیر متوقع ہے۔ ان رہنمائوں کو یہ اندازہ تو تھا کہ کسی اسٹیج پر علیم خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ اتنی جلد اور اچانک گرفتاری کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ خود علیم خان اپنی اچانک گرفتاری سے لاعلم تھے۔ سینئر وزیر کے ایک قریبی ذریعے کے بقول یہی وجہ ہے کہ بدھ کے روز جب نیب نے علیم خان کو طلب کیا اور وہ نیب آفس لاہور میں پیش ہوئے تو جاتے وقت وہ اپنی گرفتاری کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں کرکے گئے تھے۔ یہاں تک کہ نیب دفتر روانگی کے وقت انہوں نے اپنے اہل خانہ یا قریبی لوگوں سے بھی اپنی متوقع گرفتاری کو ڈسکس نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ نیب دفتر سے واپسی پر انہیں گھر نہیں، بلکہ ریمانڈ کے لئے عدالت جانا ہوگا۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ دو دن پہلے تک وزیر اعظم عمران خان کو بھی نیب کے اس فیصلے کا علم نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ لاہور کے موقع پر سارا دن علیم خان ان کے ساتھ رہے۔ حتیٰ کہ جب عمران خان معروف صحافی حسن نثار کو منانے ان کی رہائش گاہ پہنچے تو اس وقت بھی علیم خان ان کے ہمراہ تھے۔ لیکن کسی بھی موقع پر دونوں پارٹی رہنمائوں کے درمیان یہ موضوع ڈسکس نہیں ہوا۔ پارٹی کے ابتدائی آفیشلی ردعمل میں اس گرفتاری پر زیادہ بات کرنے کے بجائے اگرچہ اس بات کو سراہا جارہا ہے کہ علیم خان نے استعفیٰ دے کر شاندار روایت کا آغاز کیا ہے اور یہ کہ تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں میں فرق بتایا ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق علیم خان کی گرفتاری کو لے کر اندرون خانہ خاصی ہلچل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر ڈسکس کے لئے پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کا اہم اجلاس بلایا گیا۔
ادھر پشاور میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ علیم خان کی گرفتاری کے بعد نیب کی طرف سے تحقیقات کا سامنا کرنے والے سینئر پی ٹی آئی رہنما بھی اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ ان میں سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون اور موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک، سینئر صوبائی وزیر امور نوجوان اور ثقافت و سیاحت عاطف خان، صوبائی وزیر اشتیاق اورمڑ، سینیٹر محسن ذکی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون محمود خان شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق مالم جبہ کیس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختون محمود خان کو بھی تفتیش کے لئے طلب کیا جاچکا ہے۔ تاہم ان کا معاملہ فی الحال اتنا تشویشناک دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم اس کیس میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور صوبائی وزیر عاطف خان کے گرد نیب اپنا گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں سینئر رہنما اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ جبکہ علیم خان کی گرفتاری کے بعد پرویز خٹک اور عاطف خان کے خدشات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
نیب، مالم جبہ (سوات ) میں جنگلات کی 275 ایکڑ اراضی سیر گاہ کے لئے ایک پرائیویٹ کمپنی کو غیر قانونی طور پر لیز پر دینے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ یہ اراضی 2014ء میں اس وقت ایک پرائیویٹ کمپنی سیمسنز گروپ کو الاٹ کی گئی تھی، جب پرویز خٹک وزیر اعلیٰ خیبر پختون تھے۔ موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے علاوہ سینئر بیوروکریٹ اور وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو بھی اس تحقیقات کا سامنا ہے۔ دونوں اس سلسلے میں نیب کے روبرو اپنے بیان ریکارڈ کراچکے ہیں۔ اسی کیس میں نیب نے سینئر صوبائی وزیر محمد عاطف خان اور پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔ دوسری جانب مالم جبہ کیس میں نیب نے خیبر پختون کے موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان کو بھی طلب کیا تھا۔ کیونکہ جس وقت یہ اراضی لیز کی گئی، اس وقت محمود خان کھیل، امور نوجوان اور سیاحت کے صوبائی وزیر تھے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment