غیرمعیاری گیس سلنڈر جانی نقصان کا سبب بننے لگے

امت رپورٹ
کراچی میں گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔ سی این جی، ایل پی اور غباروں میں گیس بھر کر فروخت کرنے والوں کے ناقص اور غیر معیاری سلنڈر قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں۔ خصوصاً اسکول وینز، پبلک ٹرانسپورٹ اور پرائیویٹ گاڑیوں میں نصب غیر معیاری گیس سلینڈر انتہائی خطرناک ہیں۔ جبکہ شہر میں رہائشی عمارتوں کے نیچے قائم ایل پی جی گیس کے سلینڈر بھرنے والی دکانیں بھی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ حکومتی ہدایت پر اسکول وینز میں نصب سی این جی سلینڈرز ہٹوانے کیلئے آپریشن جاری ہے۔ تاہم پولیس کی سرپرستی میں گلی کوچوں میں قائم 500 سے زائد ایل پی جی فلنگ کی دکانوں سے شہری خوف زدہ ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شیرشاہ کباڑی بازار سے خریدے گئے زنگ آلود خستہ حال سلینڈرز پر رنگ کرکے انہیں فروخت کیا جارہا ہے۔ ابراہیم حیدری روڈ پر سلنڈرز کو چیک کرکے سرٹیفیکٹ دینے والے ادارے کے بارے میں شہریوں کو معلومات ہی نہیں ہیں۔ پولیس سے گٹھ جوڑ کرکے سلینڈر پھٹے کے واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔ دو ماہ قبل دہشت گرد ڈیفنس کے خالی پلاٹ میں کھڑی کار میں بارودی مواد رکھ کر اس کو سی این جی اور ایل پی جی سلینڈر سے جوڑ گئے تھے۔ تاہم سلینڈر پھٹنے سے محفوظ رہے۔ دو ہفتے قبل کلفٹن کے علاقے شاہ رسول کالونی میں ایل پی جی فلنگ کی دکان میں آگ لگنے سے خاصی تباہی ہو چکی ہے۔ آئے روز گھروں اور گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ تاہم ان واقعات پر سندھ حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ گاڑیوں میں نصب سلینڈرز کے فٹنس سرٹیفکیٹ چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اسکول وینز میں آگ لگنے کے واقعات کے بعد وزیر ٹرانسپورٹ نے ٹریفک پولیس کو بڑے آپریشن کی ہدایت کی ہے۔ لیکن اب بھی وینز مالکان جوڑ توڑ کر کے سلینڈر لگی گاڑیاں چلارہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں کسی بھی قسم کے سلینڈرز کو چیک کرنے کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے۔ ایل پی جی کی فلنگ کرنے والوں کی دکانوں پر بآسانی ہر سائز کا سلینڈر مل جاتا ہے، لیکن اس کی فٹنس کے حوالے سے کوئی گارنٹی نہیں دی جاتی۔ گزشتہ سال کراچی میں سلینڈر پھٹنے کے 50 سے زائد واقعات ہوئے، جن میں غباروں میں ہوا بھرنے والے سلینڈر، ایل پی جی سلینڈر، ریفریجریٹر اور اے سی میں گیس بھرنے سلینڈر پٹھنے سے کئی افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ تاہم سندھ حکومت نے اس سنگین معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ڈیفنس کے خالی پلاٹ میں دہشت گردوں نے ایک کار میں ایل پی جی اور سی این جی سلینڈرز کے ساتھ بارودی مواد نصب کیا تھا، جس سے وہ بڑا دھماکہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن خوش قسمتی سے بم پھٹنے کے دوران سلینڈرز کے کنکشن ہٹ گئے اور زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ چند ہفتے قبل کلفٹن کی شاہ رسول کالونی میں 4 منزلہ رہائشی عمارت کے نیچے قائم ایل پی جی سلینڈرز بھرنے والی دکان میں آگ لگ گئی تھی تاہم علاقہ مکینوں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے بڑا جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن عمارت اور اس کے سامنے کھڑی کاریں، رکشے اور موٹر سائیکل جل گئیں۔ تاہم پولیس کی جانب سے معاملے کو دبا دیا گیا۔ اس دکان میں 20 سے زائد بڑے چھوٹے سلینڈر موجود تھے، جو پھٹ جاتے تو رہائشی علاقے میں بڑی تباہی پھیل سکتی تھی۔ دکان کے سامنے پول پر نصب کیمرے کی فوٹیج سے معلوم ہوا تھا کہ ایک سوزوکی میں دکان پر ایل پی جی سلینڈر لائے گئے تھے۔ تاہم ایک سلینڈر سے گیس لیک ہورہی تھی، جس نے 100 فٹ دور تندور سے آگ پکڑ لی۔ تاہم علاقہ مکینوں نے فوری طور پر سوزوکی میں لگی آگ بجھا کر اس کو دور ہٹایا۔ لیکن دکان اور رہائشی عمارت جل گئی۔ اس واقعہ میں ایک خاتون دو افراد جھلس کر زخمی ہوگئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر بھر میں قائم ایل پی جی فلنگ کی دکانوں سے تھانوں کا بھتہ بندھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ سول ڈیفنس اور فائر بریگیڈ افسران کی جانب سے رہائشی علاقوں میں قائم ان فلنگ سینٹرز کو ختم کرانے کیلئے متعلقہ اداروں کو تجاویز بھیجی جاتی ہیں۔ لیکن کے ایم سی، ڈی ایم سی اور علاقہ پولیس کی بھتہ خوری کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ شہر بھر میں گیس فلنگ کی غیرقانونی دکانوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جہاں سے گھریلو صارفین سمیت کار، ٹیکسی، رکشے اور ٹھیلے والے سلینڈر بھرواتے ہیں۔ ان دکانوں میں کوئی حفاظتی انتظامات بھی نہیں ہیں اور انتہائی خطرناک طریقے سے گیس بھری جاتی ہے۔ رواں برس ناقص مٹیریل اور پتلی گیج والے سلینڈرز پھٹنے کے واقعات گلشن اقبال، کورنگی، بلدیہ، لانڈھی، ملیر اور لیاقت آباد میں رونما ہوچکے ہیں۔ گھروں میں ہونے والے ایسے واقعات میں خواتین اور بچے ہلاک و زخمی ہوتے ہیں۔ ایک ایل پی جی فلنگ کی دکان کے مالک اکرم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ رہائشی عمارت میں گیس فلنگ کی دکان بنانا ممنوع ہے۔ جبکہ فلنگ کے مقام پر سگریٹ، لائٹر یا آگ جلانا منع ہوتا ہے۔ بجلی کی تاریں اور بورڈ فلنگ پوائنٹ سے دور رکھے جاتے ہیں۔ جبکہ دکان سڑک سے 50 میٹر دور ہونی چاہئے، کیونکہ گاڑیوں کے ٹائرز کی رگڑ سے بھی گیس فلنگ کے دوران آگ بھڑک سکتی ہے۔ سی این جی اور پیٹرول پمپ پر ایسے بینرز لگانے کی ہدایت دی جاتی ہے، جن پر لکھا ہو کہ نئے سی این جی سلینڈر کو 5 سال بعد ضرور چیک کرائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی چیز پر عملدرآمد نہیں کرایا جارہا ہے۔ ابراہیم حیدری روڈ پر واقع سلینڈر چیک کرنے والے ادارے میں کوئی نہیں جاتا۔ بلکہ زنگ آلودہ اور خستہ حال سلینڈروں میں گیس بھرواکر دھڑلے سے گاڑیاں چلائی جارہی ہیں۔ اس ادارے میں سلینڈر جمع کرانے کے چند روز بعد سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے کہ یہ سلینڈر مزید اتنے سال تک کارآمد ہے۔ خراب سلینڈر کو کاٹ کر ضائع کردیا جاتا ہے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ سلینڈوں کے حوالے عوام میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے، جس میں لوگوں کو بتایا جائے کہ غیر معیاری سلینڈر خود ان کے اور دوسروں کیلئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جبکہ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سلینڈر چیک کرانے کا پروسس آسان بنایا جائے اور جگہ جگہ اس کے مراکز بنائے جائیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment