نجم الحسن عارف
تحریک لبیک کے ذرائع نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ جب فیض آباد میں ختم نبوت کے حق میں دھرنا دیا گیا تو پی ٹی آئی اور شیخ رشید سمیت اکثر اپوزیشن جماعتوں نے نہ صرف دھرنے کی حمایت کی تھی، بلکہ ان جماعتوں کے کارکنان بھی دھرنے کا حصہ رہے تھے۔ حتیٰ کہ شیخ رشید احمد ایک مرتبہ چپکے سے دھرنے میں بھی آئے تھے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت سے ملاقات کے بغیر چپ چاپ آئے اور واپس چلے گئے۔ ان ذرائع کے مطابق دھرنے کے شرکا کے لئے بھجوایا جانے والا لنگر بھی مختلف جماعتوں کے کارکنان اور پیر آف گولڑہ شریف بھجوایا کرتے تھے۔ لیکن بعد ازاں جب ریاستی ادارے تحریک لبیک کے حق میں نہ رہے تو دھرنے کے حامی سبھی لوگ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ گئے۔ دھرنے کے دنوں میں بنی گالہ میں موجود وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے مخدوم ارشد قمر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان دنوں عمران خان دھرنا دینے والے علامہ خادم حسین رضوی کو ہیرو سمجھتے تھے۔ ادھر تحریک انصاف کے مشائخ ونگ کے سربراہ اور مرکزی کوآرڈی نیٹر پیر حبیب عرفانی نے ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ ان کے سینکڑوں مریدوں نے عقیدہ ختم نبوتؐ کے لئے فیصل آباد دھرنے میں شرکت کی تھی۔ ان کے بقول ’’میں پاکپتن کے گدی نشین دیوان عظمت کے کہنے کے بعد خود بھی دھرنے میں جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک دن علامہ خادم حسین رضوی کی ایک تقریر سننے کے بعد میں نے دھرنے میں جانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ تاہم اس کے باوجود دھرنے میں شریک اپنے مریدین کو واپس نہیں بلایا تھا۔ کیونکہ اصولی طور پر ہم سب، پی ٹی آئی اور اس کی قیادت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو اپنی ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں‘‘۔ پیر آف سندر شریف سید حبیب عرفانی کے مطابق عقیدہ ختم نبوتؐ کے حوالے سے صرف مشائخ ونگ یا علما ہی نہیں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت بھی پوری طرح کمیٹڈ ہے۔ اسی کمٹمنٹ کا اظہار موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے ایوان اقبال لاہور میں پچھلے سال ماہ فروری میں ختم نبوت کا نفرس سے خطاب کیا تھا، اور عقیدہ ختم نبوت کو اپنے اور سبھی مسلمانوں کے ایمان کی اساس قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے اپنے فیصلے میں نشاندہی کی ہے کہ دھرنے کو پی ٹی آئی اور موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی بھی حمایت حاصل رہی تھی۔ مشائخ کی سیاست کے حوالے سے غیر معمولی طور پر متحرک رہنے والے مخدوم ارشد قمر نے اس عدالتی فیصلے کے بعد ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’بلاشبہ دھرنا تحریک لبیک کی طرف سے دیا گیا تھا، لیکن تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے اس دھرنے کی حمایت کی تھی۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کو ہینڈل کرنے والوں نے فیض آباد دھرنے کو آگے بڑھانے میں خوب کردار ادا کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین جب پیر آف سیال شریف سے ملاقات کے لئے سرگودھا آئے تو انہوں نے بھی کھلے لفظوں میں عقید ختم نبوت کے تحفظ کے لئے پیر آف سیالوی اور علامہ خادم حسین رضوی کے موقف کی حمایت کی تھی۔ جب کہ میں نے علامہ خادم حسین رضوی کے فیض آباد کے دھرنے پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو بھی بہت خوش دیکھا تھا۔ لیکن 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک لبیک کے امیدواروں کی وجہ سے جہاں نواز لیگ کو نقصان ہوا، وہیں پی ٹی آئی کو بھی تحریک لبیک کی وجہ سے بہت سی نشستوں پر نقصان پہنچا تھا‘‘۔
’’امت‘‘ نے پچھلے تین برس سے پی ٹی آئی کے مشائخ ونگ کے کوآرڈی نیٹر رہنے والے پیر آف سندر شریف حبیب عرفانی سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’عقیدہ ختم نبوتؐ کے حوالے سے پی ٹی آئی نے فروری 2018ء میں لاہور کے دیوان اقبال میں ایک بڑی اہم کانفرنس بھی کی تھی۔ اس کانفرنس سے عمران خان نے بھی بطور خاص خطاب میں ایمان کے لئے اس اساسی عقیدے کے ساتھ واضح اور غیر معمولی کمٹمنٹ کا اظہار کیا تھا۔ اس کانفرنس میں مشائخ کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ جبکہ علمائے کرام بھی معقول تعداد میں شریک تھے‘‘۔ تاہم پیر سید حبیب عرفانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’ہم مشائخ کرام اور بریلوی مکتبہ فکر کے بارے میں ایک اچھا تاثر یہ ہے کہ ہم درود والے ہیں بارود والے نہیں ہیں۔ لیکن علامہ خادم حسین رضوی کے لب و لہجے کی وجہ سے ہم بریلویوں کو نقصان ہوا ہے‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں پی ٹی آئی کے مشائخ ونگ کے سربراہ پیر سید حبیب عرفانی نے کہا کہ ’’جیسا میں نے پہلے کہا، عقیدہ ختم نبوتؐ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہوں گا کہ آسیہ کا کیس غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔ اس وجہ سے عدالتوں اور فوج کے خلاف بولنا درست نہیں ہے۔ ریاستی اداروں کو برا بھلا کہنے اور اداروں کے بڑوں کے خلاف فتووں کی حمایت نہیں کرسکتے۔ عدالت میں آسیہ مسیح کے خلاف کیس اچھے طریقے سے نہیں لڑا گیا۔ اس سلسلے میں ہم لوگ منافقت کر رہے ہیں۔ عدالتوں کے خلاف بولنے کے بجائے کیس درست طریقے سے لڑنا چاہیے تھا۔ جسٹس رستم کیانی کے سامنے ایک خاتون سائلہ پیش ہوئی اور اس نے کہا کہ اس کے دو بیٹوں کو غلط سزائے موت دیدی گئی ہے۔ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ اس پر جسٹس رستم کیانی نے کہا کہ میں انصاف نہیں کرتا، فیصلہ کرتا ہوں‘‘۔ حبیب عرفانی نے مزید کہا کہ ’’فیض آباد دھرنا جاری تھا تو مجھے پاکپتن شریف کے گدی نشین دیوان عظمت نے سعودی عرب سے فون کیا۔ کہا کہ میں دھرنے میں جاؤں اور اس معاملے میں علامہ خادمہ حسین رضوی کا ساتھ دوں۔ اس وقت میرے اپنے سینکڑوں مرید دھرنے میں شریک تھے۔ لیکن اسی دوران میں نے ایک تقریر ایسی سنی کہ اس کے بعد میں نے دھرنے میں جانے کا اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ البتہ جو میرے سینکڑوں مرید دھرنے میں موجود تھے، میں نے انہیں دھرنے سے واپس نہیں بلایا۔ وہ وہاں موجود رہے۔ بلاشبہ میرے مرید حضرات میری طرح پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ لیکن میں سمجھ نہیں پاتا تھا کہ ایسے ماحول میں خود ھرنے میں شریک ہوں یا نہیں‘‘۔ ایک اور سوال پر سید حبیب عرفانی کا کہنا تھا کہ ’’علامہ خادم حسین رضوی وغیرہ کے ساتھ جیلوں میں جو سلوک ہو رہا ہے، وہ یقیناً درست نہیں کہ ان کو عام قیدیوں کی طرح جیل میں ملاقات کی اجازت نہیں۔ جبکہ سروسز اسپتال اور کوٹ لکھپت جیل میں ایک سزا یافتہ کے لئے میلے کا سماں دیکھنے میں آرہا ہے۔ میرے خیال میں قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ جیل کے اصول کے مطابق سب کو حقوق ملنے چاہئیں‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’میں نام نہیں لینا چاہتا، لیکن سب لوگ جانتے ہیں کہ علامہ خادم حسین رضوی کی جماعت نے جب اکتوبر میں آسیہ کیس کے فیصلے کے خلاف دھرنے دیئے تو شیخوپورہ انٹر چینج پر کس اپوزیشن جماعت کے لوگوں نے کام دکھایا۔ وہی نہیں بلکہ باقی جماعتوں کے لوگوں نے بھی اپنا اپنا کام کیا‘‘۔
٭٭٭٭٭