امت رپورٹ
افغان حکومت پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئی۔ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نےخیبرپختون اور بلوچستان میں پختونوں پر مبینہ تشدد کے حوالے سے اپنے فیس بک بیج پر طویل بیان جاری کیا ہے۔ افغان صدر نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے سیاستدانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اسلام آباد میں پی ٹی ایم کے 18 کارکنوں کی گرفتاری سمیت بلوچستان اور خیبرپختون میں پختونوں پر ریاستی تشدد کا نوٹس لیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور صدر اشرف غنی پہلے درپردہ پی ٹی ایم کو سپورٹ کرتے تھے، لیکن اب اس کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ذرائع کے بقول افغان حکومت میں شامل ایک مشیر امتیاز وزیر جن کا تعلق اے این پی سے رہا ہے وہ اس وقت کابل میں بیٹھ کر پی ٹی ایم کیلئے افغان حکومت میں لابنگ کررہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں پاکستانی پولیس افسر ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے بعد قبائلیوں اور خبیرپختون حکومت کو لڑانے کیلئے طاہر داوڑ کی لاش پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ جس پر طورخم بارڈر پر سخت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ اس موقع پر صوبائی حکومت کے اہلکاروں کی بے عزتی کی گئی تھی اور پاکستانی سیکورٹی اداروں کے خلاف بھی نعرہ بازی کی گئی تھی۔ جبکہ طاہر داوڑ حاضر سروس آفیسر تھے اور ان کی لاش وصول کرنے کا اختیار خیبرپختون حکومت کو تھا اور صوبائی حکام نے لاش لواحقین کے حوالے کرنا تھی۔ اب بلوچستان میں ارمان لونی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد پی ٹی ایم نے پوری دنیا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پی ٹی ایم نے پہلے سے ہی ان مظاہروں کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔ تاہم ارمان لونی کی ہلاکت کے بعد اس کو پاور شو کرنے کیلئے ایک اور ایشو ہاتھ آگیا۔ پختون تحفظ موومنٹ آئندہ الیکشن میں قبائلی علاقوں سے نشستیں حاصل کرنے کیلئے اپنی عوامی حمایت بڑھانا چاہتی ہے۔ ذرائع کے بقول ارمان لونی پختونخوا میپ کے فعال رکن تھے اور پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ کے عہدیدار بھی رہے تھے۔ لیکن ان کی ہلاکت کے واقعہ کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے بجائے پی ٹی ایم نے ہائی جیک کر کے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ دوسری جانب اس واقعہ کے بعد امتیاز وزیر نے افغان حکومت میں اپنی سرگرمیاں بڑھادیں، جس کے نتیجے میں افغان صدر اشرف غنی نے کھل کر پی ٹی ایم کی حمایت شروع کردی ہے۔ جبکہ بعض افغان قبائلی عمائدین کو بھی پی ٹی ایم کے حق میں بیانا ت دینے کیلئے آمادہ کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پانچ فروری کو کابل میں یوم کشمیر پر افغان خواتین کی کشمیری خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور بھارتی فوج کے مظالم پر مظاہرے کے بعد افغانستان میں بھارتی حکام بھی حیرت زدہ ہیں۔ کیونکہ افغان طالبان کے ملک میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت کے بعد افغانستان میں بھارت مخالف گروپ بھی دہلی سرکار کیخلاف کابل کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس صورتحال میں اب افغان صدر نے پی ٹی ایم کی کھل کر حمایت شروع کردی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں افغانستان سے آنے والے شدت پسندوں کے حملوں میں بلوچستان اور خیبرپختون میں جو سینکڑوں پختون مارے گئے وہ اشرف غنی کو یاد نہیں ہیں۔ لیکن اب اچانک انہیں خیبرپختون اور بلوچستان کے پختون کی حمایت کے مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان، امریکی حکام اور روسی حکومت کی جانب سے نظرانداز کئے جانے پر افغان صدر سخت ہیجان کا شکار ہیں اور غصے میں انہوں نے اپنے دل کا غبار فیس بک پر مضمون میں نکالا ہے۔ پاکستانی حکومت اور قومی اداروں کیخلاف سرگرم پی ٹی ایم کی حمایت کرکے افغان صدر نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے بجائے خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، جس کی وجہ سے وہ پاکستان پر غصہ نکال رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کا روس میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی کردار نہیں تھا اور نہ آئندہ دوحہ میں ہونے والے طالبان اور افغان سیاستدانوں کے گرینڈ جرگے میں پاکستان کا کوئی کردار ہے۔ ذرائع کے مطابق شمالی اتحاد کے وہ رہنما جو کئی دہائیوں سے پاکستان کے خلاف ہیں اور جنہوں نے افغان حکومت میں رہتے ہوئے پاکستان مخالفین کی حمایت کی ہے وہ لوگ بھی ماسکو کانفرنس میں شریک تھے۔ اگر پاکستان کا ماسکو مذاکرات میں کردار ہوتا تو شمالی اتحاد کے رہنما کبھی شرکت نہیں کرتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 25 فروری کے بعد قطر میں ہونے والے افغان سیاستدانوں اور طالبان کے درمیان گرینڈ جرگے میں بھی افغان صدر اور ان کے ساتھی شریک نہیں ہوں گے۔ جس سے اشرف غنی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ آئندہ افغانستان کے صدر نہیں بن سکیں گے۔ اگر وسیع البنیاد حکومت قائم ہوئی تو اس میں بھی اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اسی لئے وہ اب پاکستان کے خلاف بول رہے ہیں۔
دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ نے پاکستان میں اپنے احتجاجی مظاہروں کی ناکامی کے بعد اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ہم جنس پرستی کی حامی گلالئی اسمعیل کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پروپیگنڈا شروع کیا گیا کہ اس کو مقتدر حلقوں نے غائب کردیا ہے۔ واضح رہے کہ گلالئی کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے سے تحویل میں لیا گیا تھا اور گزشتہ شب اس کو رہا کرکے اہل خانہ کے حوالے کردیا گیا۔ ذرائع کے بقول اس دوران وہ پولیس کی ہی تحویل میں رہی۔ بعدازاں گلالئی کے اپنے بیان سے تصدیق ہوگئی کہ اس کو تمام وقت اسلام آباد پولیس نے اپنی تحویل میں رکھا تھا۔
اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گلالئی اسماعیل کے معاملے میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا۔ پولیس نے قانونی طور پر گلالئی اسماعیل کو مظاہرے سے گرفتار کرکے اپنی تحویل میں رکھا تھا۔ تاہم بعدازاں اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا کہ اس کو خاتون ہونے کا فائدہ دینا چاہیے۔ جس کے بعد ضروری پوچھ گچھ کے بعد اس کو رہا کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق گلالئی اسماعیل کو حکمت عملی کے تحت اہلخانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور اس کی قانون میں بھی گنجائش ہے کہ ضروری تفتیش سے قبل کسی بھی زیر حراست شخص کی گھر والوں سے ملاقات نہ کرائی جائے۔ اگر گلالئی کی حراست کے بارے میں اس کے اہلخانہ کو اطلاع کردی جاتی تو پولیس کیلئے اس سے پوچھ گچھ کرنا ممکن نہ رہتا۔ ذرائع کے مطابق گلالئی کو خواتین پولیس اہلکاروں اور افسران کی تحویل میں رکھا گیا اور اس کی رہائی کا فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ کا مظاہرہ انتہائی کمزور تھا، جس میں چند لوگ ہی شامل تھے، جو احتجاج کے دوران گلالئی اسماعیل اور غیر ملکی این جی او کی چند خواتین کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ ذرائع کے بقول ان خواتین کی آڑ میں اشتعال انگیز نعرے بازی کی جارہی تھی۔ جبکہ اس احتجاجی مظاہرے کی پرمیشن بھی حاصل نہیں کی گئی تھی۔ قانون کی خلاف ورزی پر گرفتاریاں کی گئیں، لیکن مظاہرے میں شریک خواتین کو جانے کا موقع دیا گیا۔ تاہم گلالئی اسماعیل نے ازخود گرفتاری دی اور بعدازاں اس کی حراست کو پی ٹی ایم نے ریاستی اداروں کیخلاف پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کی جانب سے سوشل میڈیا پر گلالئی اسماعیل کے حق میں بڑی مہم نہیں چلائی جاسکی۔ غیر ملکی این جی اوز کے آلہ کار محض چند درجن افراد پروپیگنڈا کرتے رہے جبکہ عام پاکستانی اس معاملے سے بالکل لا تعلق رہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی شر انگیزی کی تمام سازشیں ناکام ہوئی ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ کو توقع تھی کہ وہ بلوچستان میں ارمان لونی کی ہلاکت پر پورے ملک میں احتجاج کرکے اپنے مذموم مقاصد حاص کرے گی۔ لیکن جب ایسا ممکن نہ ہوسکا تو اسلام آباد میں احتجاج کے دوران گلالئی اسماعیل کی گرفتاری پر مہم شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جس کیلئے مختلف واٹس اپ گروپ پر پیغامات ارسال کرکے لوگوں کو احتجاج کیلئے تیار کیا گیا۔ پروپیگنڈا کیا گیا کہ گلالئی اسماعیل کو غائب کردیا گیا ہے۔ اس معاملے پر ایک بار پھر احتجاج کی کال دینے کی تیاریاں جاری تھیں، لیکن گلالئی اسماعیل خود منظر عام پر آگئی اور بتایا کہ وہ سارا وقت پولیس کی تحویل میں رہی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت عوام کی توجہ نہ ملنے پر پریشان ہے اور وہ حکومت اور اداروں کیخلاف کوئی نئی پروپیگنڈا مہم شروع کرسکتی ہے۔ ’’امت‘‘ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین سے موقف لینے کیلئے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
٭٭٭٭٭