والد نے بیٹے کو Road to Paradise ’’جنت کا راستہ‘‘ نامی کتاب سمیت اسلام کے تعارف پر مبنی کچھ کتابیں پکڑائیں اور اسے ’’خدا تمہاری حفاظت کرے‘‘ کی دعا دے کر الوداع کہہ دیا۔
اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اس ننھے داعی کی عمر صرف گیارہ سال ہے۔ اسے بچپن ہی سے اسلام سے شدید محبت ہے اور وہ نہایت شوق سے دین کے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے۔
ننھا داعی گھر سے نکلتا ہے، اس کا رخ بازار کی طرف ہے، جہاں وہ کافی عرصہ سے لٹریچر تقسیم کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب وہ سخت سردی کے باوجود بازار میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا ہے۔ وہ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان کو سلام کرتا ہے۔ انہیں روکتا ہے۔ ان سے بات چیت کرتا ہے۔ مسکراتے ہوئے ان سے کہتا ہے:
’’دیکھئے سر! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ انہیں کتاب پیش کرتا ہے، ان سے کہتا ہے: ’’جناب! یہ فری ہے۔ یہ آپ کے لیے ہدیہ ہے۔‘‘
ان میں کچھ لوگ اس ننھے لڑکے سے کتاب لے لیتے ہیں۔ کچھ شانے اچکا کر آگے نکل جاتے ہیں۔ کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے بعد اب اس کا رخ قریبی محلے کی طرف ہے۔ وہ بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو مسکراتے ہوئے اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔ کوئی قبول کرلیتا ہے۔ کوئی انکار کرتا ہے، مگر وہ ان چیزوں سے بے پروا اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔ اب اس کے ہاتھ میں ایک ہی کتاب رہ گئی۔
وہ اس سوچ میں تھا کہ یہ آخری کتاب کسے دی جائے۔ اس نے گلی میں آنے جانے والے کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں کتاب دینے کی پیشکش کی، مگر انہوں نے تھینک یو کہہ کر انکار کیا اور آگے چل دئیے۔
گلی میں ایک جگہ جہاں بہت سارے گھر ایک ہی ڈیزائن کے بنے ہوئے ہیں۔ وہ ان میں سے ایک گھر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے دروازے پر جا کر گھنٹی بجاتا ہے، کسی نے جواب نہ دیا۔ اس نے بار بار گھنٹی بجائی، مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ یہ اس کے طریق کار کے خلاف تھا کہ وہ کسی کے دروازے کو اس طرح بجائے، مگر آج اس نے دروازے کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا۔ زور سے کہا: ’’کوئی اندر ہے تو دروازہ کھولو۔‘‘
اندر بدستور مکمل خاموشی تھی۔ وہ مایوس ہونے لگا، اس نے کچھ سوچا اور آخری بار اپنی انگلی گھنٹی پر رکھ دی۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی رہی… اور آخر کار اسے اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔ چند لمحوں بعد آہستگی سے دروازہ کھلتا ہے۔
ایک بوڑھی خاتون چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار لیے سامنے کھڑی تھی، کہنے لگی: ’’ہاں میرے بیٹے! بتائو میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟‘‘
ننھے داعی نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’نہایت ہی معزز خاتون! اگر میں نے آپ کو بے وقت تنگ کیا ہے، تو اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے حقیقی اور سچی محبت کرتا ہے۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ میں کچھ کتابیں تقسیم کر رہا تھا۔ میرے پاس یہ آخری کتاب بچی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کروں…‘‘
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭