جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میری دعوت سے چھ سوسے زائد امریکی خواتین مسلمان ہوچکی ہیں۔ خواتین میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ میرا ہدف شعبہ تعلیم ہے، جس کے نصابات میں اسلام کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے۔ چنانچہ میں نے عزم کر لیا کہ اس تکلیف دہ صورت حال کی اصلاح کرنی چاہئے۔ اس کے لئے میں اکیڈمی آف ریلجس سائنس کے کار پردازوں سے ملی۔ یہی لوگ نصابات اور ٹی وی پروگراموں میں اسلام کی غلط تصویر کشی کے ذمہ دار ہیں، میں نے اصرار کے ساتھ ان سے بحث مباحثہ کیا اور انہیں قائل کر لیا کہ اگر نشاندہی کردی جائے تو وہ متعلقہ حصوں کی اصلاح کردیں گے…
چنانچہ میں نے مسلمان والدین کو توجہ دلائی، امریکہ میں مختلف مسلم انجمنوں سے رابطہ قائم کیا اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ بچوں کی نصابی کتب میں سے غلط اور قابل اعتراض باتوں کی نشاندہی کریں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اسلامک فاؤنڈیشن فار کری کلم ان رسبنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (IFOD) کا قیام عمل میں آیا، جس کے تحت نصابی کتابوں میں اسلام کے خلاف منفی اور قابل اعتراض مواد کی نشاندہی کی جاتی ہے… اسی طرح امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون یہودی، عیسائی اور ہندو پڑھاتے ہیں۔ ہم نے (IFOD) کی وساطت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اسلامیات کی تدریس پر صرف مسلمان اساتذہ کا تقرر کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ خدا نے چاہا تو ہم یہ مطالبہ منظور کرا لیں گے۔
میرا وہ خاندان جس نے میرا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا، خدا کے فضل سے اس کے بیشتر افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔ میرے والد جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، وہ مسلمان ہوچکے ہیں اور والدہ، سوتیلے والد، دادی، دادا اور خاندان کے کئی دیگر افراد بھی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ میرا وہ بیٹا جو اپنے عیسائی باپ کے پاس رہتا ہے اور جس کی مذہبی تربیت عیسائیت کے عین مطابق بڑے اہتمام سے ہورہی تھی، ایک روز میرے پاس آیا اور کہنے لگا ممی! اگر میں اپنا نام تبدیل کرکے فاروق رکھ لوں، تو آپ کے نزدیک کیسا رہے گا؟
میں پہلے حیرت اور پھر مسرت کے بے پناہ احساس سے نہال ہوگئی، میں نے اسے گلے سے چمٹالیا، پیار کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے فوراً ہی کلمہ پڑھ لیا۔ فاروق اب بھی باپ کی تحویل میں ہے، مگر راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔ میری وہ بہن جو مجھے پاگل سمجھتی تھی، ایک تقریب میں اس نے میری تقریر سنی تو بے اختیار تعریف کرنے لگی۔ امید ہے وہ بھی ایک روز دائرئہ اسلام میں آجائے گی۔
یہ بھی خدا کی عنایت ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے باپردہ زندگی گزار رہی ہوں۔ اس ملک میں چہرے پر نقاب ڈال کر ادھر ادھر جانا تو ممکن ہی نہیں کہ اس سے بے شمار مشکلات آڑے آتی ہیں۔ تاہم چہرے اور ہاتھوں کے سوا میں سارے جسم کو ڈھیلے لباس میں مستور رکھتی ہوں اور اس میں بھی قدم قدم پر تعصب اور تنگ نظری کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ ایک مرتبہ میں اسی لباس میں ایک بینک میں گئی تو جب تک وہاں موجود رہی، بینک کا گن مین میرے سر پر رائفل تان کر کھڑا رہا۔ ایک پی ایچ ڈی خاتون متعلقہ ملازمت کیلئے منتخب ہو گئی، مگر اسے پہلے ہی روز اس لئے فارغ کر دیا گیا کہ وہ باحجاب لباس میں تھی اور اس نوعیت کی مثالیں بے شمار ہیں…
ایک بار میں نے ریڈیو پر بچوں کا پروگرام کیا، اسے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا، مگر تقریب سے ایک روز قبل جب کمیٹی کے ارکان سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے اسلامی لباس میں دیکھا تو کمال ڈھٹائی سے انہوں نے ایوارڈ منسوخ کر دیا۔
بہر حال یہ ہے امریکہ کا ماحول اور یہ ہیں وہ رکاوٹیں جن میں رہ کر مجھے تبلیغ دین کا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دعا کریں حق تعالیٰ مجھے استقامت عطا کرے اور میں اخیر وقت تک نہ صرف خود ایمان و یقین سے سر شار رہوں، بلکہ یہ روشنی دوسروں تک بھی پہنچاتی رہوں۔‘‘
فروری 1990ء میں محترمہ امینہ انٹرنیشنل یونین آف مسلم وومن کی عالمی کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان تشریف لائیں اور یہاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات لاہور کالج برائے خواتین کنیرڈ کالج، کالج فارم ہوم اینڈ سوشل سائنسز اور اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں خطاب فرمایا۔ انہوں نے خواتین کو تکرار کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی کہ حجاب میں عورت کی عزت و احترام ہے اور عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے بچوں کی پرورش ہے۔ انہوں نے بڑے دکھ سے کہا: میں سمجھتی تھی کہ پاکستان کا معاشرہ اسلامی رنگ میں رنگا ہو گا، مگر افسوس کہ یہاں ایئرپورٹ پر اتر تے ہی مجھے مردوں کے عجیب و غریب رویے سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ عورتوں کو جس انداز میں بے باکی کے ساتھ گھورتے ہیں، اس طرح تو امریکہ کے لادین معاشرے میں بھی نہیں ہوتا۔ پھر یہاں کی خواتین پورپین عورتوں کی نقالی میں ماڈرنزم اختیار کرنے کی بڑی شوقین ہیں۔ میں انہیں انتباہ کرتی ہوں کہ یورپ کے معاشرے کی تقلید نہ کریں۔ وہاں کی خواتین آزادی اور برابری کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکیں، انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں مردوں سے مسابقت کا انداز اختیار کیا اور نسوانیت کو ترک کر کے مردوں کی روش اپنالی۔ نتیجہ یہ کہ آج یورپ میں عورت سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں، وہ فحاشی اور عدم تحفظ کے گہرے گڑھے میں گر گئی ہے اور جو کچھ اس کے پاس تھا، وہ بھی کھو دیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭