حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ تین قسم کے آدمیوں کے حال پر مجھے بہت تعجب ہوتا ہے۔ اول، جو دنیا کی محبت میں اور اس کے پیچھے دن رات دیوانہ بنا رہتا ہے اور دین کے سب کاموں کو بھول جاتا ہے، باوجود اس بات کے کہ وہ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مجھ کو ایک دن ضرور مرنا ہے، ایک روز موت ضرور آئے گی اور یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔
دوم، وہ جو اتنا غافل ہو گیا ہے کہ وہ کچھ سوچتا ہی نہیں، جو اس کے جی میںآتا ہے کرتا جاتا ہے اور جہاں چاہے جاتا ہے اور ہر طرح کی بیہودگی کے کام کرتا ہے باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ فرشتے کراماً کاتبین دونوں کندھوں پر بیٹھے ہوئے اس کی نیکی و بدی کے ہر کام کو ہر وقت لکھتے رہتے ہیں اور ہر روز کا نامہ اعمال درگاہ الٰہی میں پیش کرتے ہیں۔
سوم وہ جو ہمیشہ بے غم و بے فکر رہتا ہے نہ اسے دنیا کی فکر نہ آخرت کی، حیوانوں کی طرح سے دن رات کھاتا پیتا رہتا ہے، ایسے شخص سے حق تعالیٰ بہت بیزار ہے جو جانوروں کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ (قبر کی پہلی رات)
خدا کے دوستوں کی شان
حضرت ذوالنون مصریؒ سے روایت ہے، فرمایا کہ حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے موسیٰ! اس پرندے کی مانند زندگی بسر کرو، جو تنہا رہتا ہے اور درخت پر سے روزی کھاتا ہے اور خالص نہر کا پانی پیتا ہے اور جب رات ہو جاتی ہے تو کسی غار میں پناہ گزین ہوتا ہے، کیونکہ اسے مجھ سے انس اور میری نافرمانیوں سے نفرت ہے۔
اے موسیٰ! میں نے اپنے اوپر قسم کھائی ہے کہ کسی مدعی عمل کا عمل پورا نہیں ہونے دوں گا، جو میرے غیر سے امیدیں رکھتا ہے، اس کی امیدیں منقطع کر دوں گا اور جو میرے غیر پر بھروسہ کرے گا، اس کی پیٹھ توڑ دوں گا۔
اے موسیٰ! میرے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ مجھ سے سرگوشی کرتے ہیں تو میں (اپنی شان کے مطابق) کان لگا کر سنتا ہوں، اگر پکارتے ہیں تو ان کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، اگر وہ میری طرف آتے ہیں تو میں ان کو اپنے قریب کرتا ہوں اور ان کی کفایت کرتا ہوں، اگر وہ مجھے سرپرست بناتے ہیں، تو میں ان کی سرپرستی قبول کرتا ہوں، اگر وہ خالص محبت کرتے ہیں تو میں جزا دیتا ہوں اور ان کے ساتھ خالص محبت کرتا ہوں۔ میں ان کا مدبر ہوں اور ان کے قلوب کا نگہبان ہوں اور ان کے احوال کا متولی ہوں، میں نے ان کے دلوں کی تسکین صرف اپنے ذکر ہی میں رکھی ہے، اسی میں ان کی بیماریوں کی شفا ہے اور ان کے دلوں پر روشنی ہے اور ان کو میرے سوا چین بھی نہیں آتا۔ (اولیاء کے اخلاق)
٭٭٭٭٭