عاشق صادق کا جنازہ

کچھ دنوں بعد احمد ابن یزید کی ماں روتی ہوئی آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آبدیدہ ہوکر عرض کیا: حضور! میرا ایک ہی فرزند تھا، جسے دیکھ کر میں اپنی آنکھوں کی تشنگی بجھاتی تھی۔ چند دنوں سے وہ نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ہے۔ ہمارے پڑوسیوں نے خبر دی ہے کہ ایک شب وہ آپ کی مجلس وعظ میں شریک ہوا تھا۔ اسی وقت سے اس کی حالت غیر ہوگئی۔ آپ کے چند جملوں نے اسے دیوانہ بنادیا۔ آہ! اب مجھے اپنی اولاد کا ماتم کرنا ہوگا۔
حضرت نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: اے ضعیفہ! صبرو شکر سے کام لے۔ تیرا بیٹا ضائع نہیں ہوا ہے۔ وہ جب بھی میرے پاس آئے گا۔ میں تجھے خبر دوں گا۔ خدا کی طرف بڑھنے والوں پر ماتم کا انداز اختیار کرنا خدا کی وفادار کنیزوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔
چند ہی دنوں بعد گرد آلود چہرے، پراگندہ بال اور ایک سرشار دیوانے کی سج دھج میں احمد ابن یزید حضرت سری سقطیؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ چہرے پر نظر پڑتے ہی حضرت نے جلال عشق کا تیور پہچان لیا۔ اٹھ کر سینے سے لگایا۔ خیرو عافیت دریافت کی اور بہت دیر تک اپنے پاس بٹھائے رکھا۔
اسی درمیان میں ماں کو اطلاع بھجوائی کہ تمہارا بیٹا آگیا ہے۔ آکر ملاقات کرلو۔ ماں کو جیسے ہی خبر ملی، اپنی بہو اور پوتے کو ساتھ لے کر روتی پیٹتی اپنے بیٹے کے پاس آئی اور اس کے چہرے کی بلائیں لیتے ہوئے کہا:
بیٹا! تو اپنی بوڑھی ماں اور بیوی کو چھوڑ کر کہاں چلا گیا تھا۔ تیرے فراق میں روتے روتے ہمارے آنچل بھیگ گئے۔ انتظار میں آنکھیں پتھرا گئیں۔ چل واپس چل اپنے گھر کو آباد کر۔ ہماری امیدوں کا چمن مرجھا گیا ہے، پھر سے اسے شاداب کر۔
بیوی نے فرط غم سے منہ ڈھانپ لیا اور سسکیاں بھرتے ہوئے کہا: میرے سرتاج! آخر ہم سے کیا بھول ہوئی کہ تم اس طرح روٹھ کر چلے گئے۔ جیتے جی اپنے بچے کو تم نے یتیم بنا دیا۔ تمہارے سوا ہمارے ارمانوں کا کون نگراں ہے؟
ماں اور بیوی نے ہزار منت و سماجت کی، لیکن دیوانہ عالم ہوش کی طرف پلٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ روح پر سرور عشق کا اتنا گہرا نشہ تھا کہ ہزار جھنجھوڑنے کے بعد بھی عالم نہیں بدلا۔ ایک دیوانہ عشق کا کیف دیکھنے کے لئے سارا شہر امنڈ آیا تھا۔ دیوانہ ایک بار پھر بے خودی کی حالت میں اٹھا اور صحرا کی طرف رخ کیا۔ قدم اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ پیچھے سے بیوی نے دامن تھام لیا اور آبدیدہ ہوکر کہنے لگی:
ہماری آرزؤں کا خون کرکے جانا ہی چاہتے ہو تو اکیلے مت جاؤ۔ اپنے اس بچے کو بھی ہمراہ لے جاؤ!
اس آواز پر احمد ابن یزید کے قدم رک گئے۔ انہوں نے اپنے ننھے منے بچے کے ساتھ جسم سے قیمتی لباس اتار کر اپنا پھٹا ہوا کمبل اس کے جسم پر لپیٹ دیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں زنبیل دی اور دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر جونہی اسے اپنے ہمراہ لے کر چلے، بیوی اس دردناک منظر کی تاب نہ لاسکی۔ سارا مجمع اس رقت انگیز عالم کو دیکھ کرآبدیدہ ہوگیا۔ ماں کو اپنے لخت جگر کی جدائی برداشت نہ ہو سکی۔ بے تحاشا دوڑ کر اس نے اپنے بچے کو باپ کے ہاتھ سے چھین کر اپنے سینے سے لپٹا لیا۔
احمد ابن یزید نے پلٹ کر ایک بار پھر اپنے بچے کو دیکھا اور پلکوں کا آنسو سینے کی تپتی ہوئی خاکستر میں جذب ہوکر رہ گیا۔ فضا میں ایک دردناک نعرے کی آواز گونجی اور لوگوں کے دل ہل گئے۔ آنکھ کھلی تو احمد ابن یزید نگاہوں سے اوجھل ہو چکے تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment