سرفروش

عباس ثاقب
سکھبیر نے مسکراتے امر دیپ سے کہا۔ ’’آپ بے فکر ہوکر گھر جاؤ بھائی۔ ذاکر سے معاملات طے ہوگئے ہیں۔ یہ توواقعی مہاپرش نکلے۔ میں کل اسے اپنے ساتھیوں سے ملوانے ڈمڈمی ٹکسال لے کر جاؤں گا۔ ہو سکتا ہے اسے چھاجلی پہنچنے میں ایک آدھ دن اور لگ جائے۔ لیکن اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری تمام غلط فہمی دور ہوگئی ہے۔ یوں سمجھو یہ اب اپنوں کے بیچ پہنچ چکا ہے‘‘۔
امر دیپ نے یہ سن کر میری طرف دیکھا۔ میں نے سر ہلاکر سکھبیر کی تائید کی تو اس کے چہرے پر گہرا اطمینان امڈ آیا۔ ڈاکٹر چوہان نے امر دیپ کو مزید مطمئن کرنے کے لیے سکھبیر کو کہا۔ ’’میں نے کہا تھا ناں پاہ جی کہ یہ بندہ کندن کی طرح کھرا ہے۔ آخر واہگرو نے ہمیں بھی جانچ رکھنے والی آنکھیں دے رکھی ہیں‘‘۔
سکھبیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نے آپ کی پارکھ نظروں پر کب شک کیا ہے ڈاکٹر صاحب۔ لیکن احتیاط ہمارے سب سے پہلے اصولوں میں سے ایک ہے۔ باقی ہم سب آپ کی قیادت میں ہی اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ ہمیں آپ پر فخر ہے کیونکہ آپ اپنے ٹھوس دلائل کے ذریعے ہمارے سکھ بھائیوں کو خالصتان تحریک میں شامل ہونے کے لیے جس آسانی سے قائل کرلیتے ہیں۔ وہ ہم میں سے اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے‘‘۔
ہم نے گرم جوشی سے امر دیپ کو رخصت کیا اور اس کے بعد ڈاکٹر چوہان کو ساتھ لے کر سکھبیر کے ٹھکانے کی طرف واپس چل دیئے۔ سکھبیر نے اپنی گن لباس میں چھپا رکھی تھی۔ لیکن میں جانتا تھا کہ وہ پلک جھپکتے میں مجھے نشانے پر رکھ سکتا ہے۔
ہم سکھبیر کے ٹھکانے پر پہنچے تو وہاں اچھی خاصی چہل پہل دکھائی دی۔ آس پاس کے کمروں میں کم از کم آٹھ دس افراد موجود تھے۔ جو آپس میں بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے۔ اپنی آوازوں سے وہ سب کے سب جواں عمر لگ رہے تھے۔ سکھبیر نے میری توجہ بھانپتے ہوئے بتایا۔ ’’یہ سب میرے ساتھی ہیں۔ ایک سے بڑھ کے ایک دلیر اور جاں باز۔ اپنی دھرم کی عزت کے لیے سر کٹانے کو تیار۔ ان میں سے کئی نہنگ ہیں اور دو تین امرت دھاری۔ ہم اپنے کل کے مشن میں کامیاب ہوکر آجائیں۔ پھر میں ان سب سے تمہاری ملاقات کراؤں گا‘‘۔
میں نے اس کی بات پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ اگر وہ اپنی احتیاط اور شک کی چادر بدستور اوڑھے رکھنے پر بضد تھا تو مجھے کیا پڑی تھی کہ اپنی صفائی پیش کرنے میں وقت ضائع کرتا۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر چوہان سے تبادلہ خیال زیادہ مناسب سمجھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، یہ بتائیے آپ خالصتان کے قیام کی جدوجہد میں ماسٹر تارا سنگھ کے کردار پر کیا خیالات رکھتے ہیں؟ اور کیا وہ آپ لوگوں کی طرف سے مسلح جدوجہد سے پوری طرح واقف ہیں؟ اگر ہاں تو وہ آپ لوگوں کی حمایت کرتے ہیں یا مخالف ہیں؟‘‘۔
میرے سوالات سن کر ڈاکٹر چوہان نے ایک گہری سانس کھینچی۔ سکھبیر بھی سب سن رہا تھا۔ لیکن اس نے ڈاکٹر چوہان کو جواب دینے کا موقع دیا۔ چند لمحوں تک اپنے خیالات یکجا کرنے کے بعد ڈاکٹر چوہان نے کہا۔ ’’بھائی ذاکر، تم نے ماسٹر تارا سنگھ کا ذکر کر کے ہمارے دل کے زخم چھیڑ دیئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو خالصتان کا باوا آدم کہلانے والے اس شخص نے ہی اپنی قوم کی آزادی کی راہ کھوٹی کی ہے‘‘۔
ڈاکٹر چوہان کے چہرے پر دکھ کے آثار گہرے ہوگئے۔ ’’تمہیں شاید پتا نہ ہو۔ ماسٹر تارا سنگھ نے جو غلطی کی اس کا خمیازہ آج ہماری دوسری نسل بھگت رہی ہے۔ برطانوی حکومت نے 1922ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اسٹیٹس کونسل کے انڈین سیکریٹری سردار بہادر شو دیو سنگھ کے ذریعے سکھوں سے کہا کہ سکھ اگر اپنے آپ کو کانگریس سے الگ کر لیں تو انہیں پنجاب میں تیسری آزاد قوت کے طور پر سامنے لایا جائے گا۔ ان کا وجود ایک الگ قوم کا ہوگا۔ اس کا جواب ماسٹر تارا سنگھ نے یہ دیا کہ یہ تجویز قبول کر کے وہ اپنے منہ پر کالک نہیں ملنا چاہتا۔ لیکن پھر سکھوں کے مفادات سے غداری کر کے اپنے منہ پر کالک ملنے پر انہیں کوئی شرم نہیں آئی‘‘۔
سکھوں کے سب سے بڑے رہنما ماسٹر تارا سنگھ کے بارے میں ڈاکٹر چوہان کے اس بیان پر ردِ عمل جاننے کے لیے سکھبیر کے چہرے کا جائزہ لیا تو اسے تائید میں سر ہلاتے پایا۔ ڈاکٹر چوہان نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ ’’یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1929ء میں جب بابا کھڑک سنگھ نے تیسری قوم کے طور پر سکھ کو الگ قوم ماننے کا مطالبہ کیا تو کانگریس کے خفیہ ہاتھ نے انہیں سکھ قیادت سے الگ کر کے ان کی جگہ ماسٹر تارا سنگھ کو گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کا پردھان بنوا دیا۔ جو شکل و صورت سے سکھ ہونے کے باوجود ہندو مفادات کے محافظ کا کردار ادا کر رہے تھے‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment