نجی اسکولوں کی فیسوں کا معاملہ طے نہ ہوسکا

عظمت علی رحمانی
ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن افسران کی غفلت سے نجی اسکولوں میں فیسوں کی کمی کا معاملہ طے نہیں ہو سکا۔ ڈائریکٹوریٹ میں ڈائریکٹر انسپیکشن سمیت دو اسسٹنٹس کی اسامیاں خالی ہیں، جبکہ کراچی کے ہزاروں نجی اسکولوں کی انسپیکشن کیلئے ڈپٹی ڈائریکٹر کو اجازت ہی نہیں ہے۔ والدین کی شکایات کے باجود فیسیوں کے معاملات حل نہیں کرائے جاتے۔
واضح رہے کہ ملک بھر کے نجی تعلیمی اداروں کو فیسیوں میں کمی کرنے کے عدالتی احکامات جاری کئے جا چکے ہیں۔ ان احکامات پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن سندھ انسپکشن اینڈ رجسٹریشن کے اعلی افسران کی ذمہ داری ہے۔ تاہم محکمہ تعلیم کے ماتحت مذکورہ ادارے کے افسران کی جانب سے اسکولوں کے ساتھ سیٹنگ کی وجہ سے انہیں رعایت دی جارہی ہے۔ اس وجہ سے والدین کو فیسیوں کی زائد ادائیگیاں کرنی پڑرہی ہیں۔
عدالت کی جانب سے ملک بھر کے نجی اسکولوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ 5 ہزار روپے سے زائد وصول کی جانے والی فیس میں سے 20 فیصد فیس واپس کریں اور آئندہ کم وصول کریں۔ جبکہ 5 ہزار روپے تک فیس وصول کرنے والے اسکول سالانہ فیس میں صرف 5 فیصد تک اضافہ کرسکتے ہیں۔ نجی اسکول جون اور جولائی 2018ء کی وصول کردہ فیسوں میں سے جون کی فیس واپس کریں گے یا اس کو ایڈجسٹ کریں گے۔ تاہم اس فیصلے میں شہر کے 22 بڑے اسکولوں کے نام بھی لکھے گئے تھے، جن کے خلا ف ایف آئی اے کو انکوائری کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ملک بھر کے دیگر نجی اسکولوں کی جانب سے اس فیصلے کو صرف 22 اسکولوں کیلئے فیصلہ قرار دے کر اس پر عمل کرنے سے گریز کیا گیا۔ بعد ازاں معاملہ دوبارہ عدالت پہنچ گیا تھا۔ تاہم عدالت کی جانب سے دوبارہ احکامات جاری کئے گئے کہ ملک بھر کے نجی اسکولوں پر اس فیصلے کا اطلاق ہوگا۔ اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جن نجی اسکولوں کی فیس 5 ہزار سے زائد ہے وہ اس زائد فیس میں فی الفور 20 فیصد کمی کریں۔ جبکہ ایسے اسکول جن کی فیس 5 ہزار روپے سے زائد ہے وہ سالانہ فیس بڑھانے سے قبل متعلقہ اتھارٹی سے اجازت لیں گے۔
ادھر ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن سندھ انسپکشن اینڈ رجسٹریشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منسوب حسین صدیقی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کیلئے تمام نجی اسکولوں کو خطوط جار ی کئے ہیں اور انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا ہے جس کے بعد متعدد اسکولوں کی جانب سے فیس میں 20 فیصد کمی کی ہے۔ تاہم اگر اس کے بعد بھی کوئی اسکول فیس میں کمی نہیں کررہا تووہ توہین عدالت کا مرتکب ہو رہا ہے، جس کے خلاف کاکارروائی کی جائے گی‘‘۔
معلوم رہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن سندھ انسپکشن اینڈ رجسٹریشن میں ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منسوب حسین صدیقی اور ڈائریکٹر انسپکشن ہیڈ آفس محمد صالح بھٹو مرحوم تھے، جن کے بعد تاحال مذکورہ عہدے پر کسی کی بھی تعیناتی نہیں ہو سکی ہے۔ ڈائریکٹوریٹ کی رجسٹرار رافیعہ جاوید ہیں، ڈائریکٹوریٹ میں ڈائریکٹر انسپکشن کے علاوہ دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے عہدے بھی خالی ہیں، جن میں سے ایک ڈائریکٹوریٹ ہیڈ آفس جبکہ دوسرا ریجنل آفس میں ہے۔ وہاں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی اسامی پر کوئی بھی تعینا ت نہیں ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر مانیٹرنگ ہیڈ آفس ستار میمن کو اعلی افسران کی جانب سے نجی اسکولوں کی مانیٹرنگ کی اجازت ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے کراچی بھر کے نجی اسکولوں میں مانیٹرنگ نہ ہونے سے جہاں اسکول مالکان من مانی کررہے ہیں، وہیں والدین کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ کے اعلی افسران کی جانب سے ملی بھگت سے ڈپٹی ڈائریکٹر مانیٹرنگ کو انسپکشن کے بجائے پولیو سمیت دیگر امور کی انجام میں لگا دیتے ہیں، جس کے باعث اسکولوں کی انسپکشن کا معاملہ رک جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment