امریکی اور افغان ایجنسیاں پی ٹی ایم کی سرپرست بن گئیں

وجیہ احمد صدیقی
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی سی آئی اے اور افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس پشتون تحفظ موومنٹ کی سرپرستی کررہی ہیں۔ جبکہ ملک دشمن تنظیم کی سرگرمیوں میں ’’را‘‘ کی بھی سرمایہ کاری ہے۔ پی ٹی ایم کے مقاصد بالکل الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی طرح ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے ٹویٹ نے اس ملک دشمن تنظیم کے سرپرستوں کو آشکار کردیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر سے یہ استفسار کیا کہ افغان صدر اشرف غنی کے ٹوئٹ نے انہیں فائدہ پہنچایا یا اس سے انہیں نقصان ہوا۔ تو وہ تذبذب میں پڑ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم انسانی حقوق کیلئے ہر ایک کی حمایت حاصل کریں گے، چاہے وہ عیسائی ہو یا ہندو۔ لیکن اگر افغان صدر نے بدنیتی سے ٹوئٹ کیا ہے تو ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔ علی وزیر کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ عوامی چندے سے چلتی ہے۔ جبکہ فاٹا لائرز ایسوسی ایشن پشاور کے صدر اعجاز مہمند ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت، پاکستان اور پاکستانیوں سے سخت نفرت کرتی ہے۔ ان کی اس نفرت کے پیچھے امریکہ، بھارت اور افغان انٹیلی جنس، این ڈی ایس کی سرمایہ کاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکہ مجبوراً نکل رہا ہے، لیکن اس کی خواہش ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد نہ صرف افغانستان میں بلکہ پاکستان میں بھی خانہ جنگی ہوجائے۔ اسی لئے پشتون تحفظ موومنٹ کو سپورٹ کیا جارہا ہے۔ اعجاز مہمند ایڈووکیٹ نے بتایا کہ تقریباً چھ ماہ پہلے رنگ روڈ پشاور کے قریب ایک اجلاس میں منظور پشتین کے ساتھ پارٹی کے لوگوں کا بیرون ملک سے آنے والے فنڈز کی تقسیم پر جھگڑا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ منظور پشتین نے ویٹرنری سائنس کی تعلیم حاصل کی ہے اور وہ ویٹرنری ڈاکٹر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت کرتا تھا اور چند ہزار روپے اس کی تنخواہ تھی، جس سے گھر کا خرچ بھی چلانا مشکل ہوتا تھا۔ لیکن آج وہ یومیہ لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے۔ اس کی آمدن کا سراغ لگانا حکومتی اداروں کا فرض ہے۔ اعجاز مہمند ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے۔ لیکن افغانستان ایسی خواہش نہیں رکھتا۔ میں 2016ء کے اواخر میں افغانستان گیا تھا۔ وہاں ایک سرکاری اجلاس میں پاکستان کے حوالے سے افغان حکام نے اپنی تقاریر میں جو ہرزہ سرائی کی تھی تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ پاکستان کے خلاف کوئی نئی سازش جنم لے رہی ہے۔ پھر نقیب اللہ کے قتل کی آڑ میں پشتون تحفظ موومنٹ کو سامنے لایا گیا۔ افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کے پیچھے سی آئی اے اور ’’را‘‘ کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ ان کے پاس فتنہ انگیزی کیلئے دو ہتھیار ہیں، ایک مذہب اور دوسرا قوم پرستی۔ جن کو استعمال کرکے وہ پاکستان میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح گریٹر پختونستان تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اس کیلئے مغربی ممالک زیادہ سرگرم ہیں۔ امریکہ میں پی ٹی ایم کیلئے فنڈز جمع کیے جارہے ہیں۔ میڈیا میں ان کی سرگرمیوں کو نمایاں کیا جارہا ہے۔ پی ٹی ایم والے گریٹر پختونستان اور گریٹر افغانستان کی باتیں کررہے ہیں۔ لیکن میں نے ان سے کہا ہے کہ 200 سال پرانی باتیں چھوڑیں بلکہ اس معاملے پر ریفرنڈم کرالیں کہ افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقے کس ملک میں شامل ہوں، وہاں کے عوام سے پوچھ لیتے ہیں۔ اگر ایسا کوئی ریفرنڈم ہوا تو مجھے امید ہے کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بن جائے گا۔ لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے، افغانستان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ پاکستان کی سرحدی حدود کو تسلیم کرلے۔ پی ٹی این کو پشتون عوام میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے، یہ محض غیر ملکی ایجنسیوں کی امداد پر چل رہی ہے۔ میں نے منظور پشتین سے ملاقات میں کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ اس وقت شامل ہوں گا، جب تم میری دو باتیں مان لو۔ ایک یہ کہ تمہاری سیاست کا دائرہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر ہو گا اور فاٹا کو سیاسی حقوق دلانے کی بات ہوگی اور دوسری بات یہ کہ تم بلاتفریق فیوڈل ازم کے خلاف آواز اٹھا ئو گے۔ منظور پشتین نے یہ کہہ کر ان باتوں کو ماننے سے انکار کر دیا کہ کمیٹی مجھے اس کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ کمیٹی وہی ہے جو این جی اوز کی آڑ میں پشتون تحفظ موومنٹ کو غیر ملکی سرمایہ مہیا کرتی ہے‘‘۔
کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے والے ایک معروف پختون نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پشاور میں موجود امریکی قونصل خانہ این جی اوز اور دیگر سیاسی شخصیات کو پی ٹی ایم کی حمایت کیلئے اکساتا ہے اور پختون نیشنلزم کو فروغ دینے کی بات کرتا ہے۔ اے این پی کے کمیونزم اور سوشلزم کے علمبردار افراسیاب خٹک اور بشری گوہر اب 26 سالہ منظور پشتین کی ماتحتی میں آگئے ہیں، یہ صرف امریکی قونصل خانے کے اشاروں کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم نے تمام قوم پرست پشتون جماعتوں کی سیاست کو نقصان پہنچایا ہے، جن میں اے این پی اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔ اے این پی نے تو افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کو نکال باہر کیا ہے۔ لیکن پختون خواہ ملی عوامی پارٹی پشتون قومی موومنٹ کے پیچھے چل پڑی ہے۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن کو پختونوں نے سیاسی طور پر مسترد کردیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment