نجم الحسن عارف
مسلم لیگ (ق) وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حمایت کا بیانیہ بار بار دہراکر در حقیقت وزیر اعلیٰ کو کمزور ثابت کرنے کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھایا گیا ہے۔ اس بندوبست سے مسلم لیگ (ق) بھی امید رکھتی ہے کہ کم از کم اسے پنجاب میں ایک مرتبہ پھر موقع مل سکتا ہے۔ لہٰذا (ق) لیگ کی قیادت بظاہر عثمان بزدار کی حمایت کا تاثر دیتی ہے، لیکن اصلاً چوہدری پرویز الٰہی کے لئے وزارت علیا کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان آج بھی عثمان بزدار کے اسی طرح سرپرست ہیں، جس طرح آج سے چند ماہ پہلے تھے۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف براہ راست یا بالواسطہ طور پر متحرک رہنے والے کسی فرد یا گروپ کو اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف نہ صرف خود پی ٹی آئی کے اندر مخالفت پائی جاتی ہے۔ بلکہ ق لیگ بھی کسی نہ کسی صورت میں اس ماحول کا حصہ ہے۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ عثمان بزدار کو کمزور آدمی اور کم اہلیت کا وزیر اعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے افراد میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کے علاوہ علیم خان اور پی ٹی آئی کے پنجاب میں ایک اور وزیر میاں اسلم اقبال بھی متحرک رہے ہیں۔ تاہم نیب کے ہاتھوں گرفتار علیم خان کے لئے کسی بھی طرح کا امکان باقی نہیں رہا ہے۔ تحریک انصاف کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو اندازہ ہوگیا تھا کہ علیم خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری ہوگی۔ لیکن قیادت اس کا پہلے سے اظہار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ علیم خان کی نیب میں گرفتاری کے بعد عثمان بزدار کی پوزیشن قدرے بہتر ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ لیکن عثمان بزدار کی جگہ خود کو وزیر اعلیٰ پر فائز کرنے کے خواب دیکھنے والی سیاسی شخصیات ابھی مایوس نہیں ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ ق لیگ اتحادی ہونے کے باوجود الگ سے کسی اور جگہ سے ہینڈل کی جا رہی ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ق لیگ کو ناگوار گزرنے والا ایک بیان دیا تھا۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے بھی پنجاب میں ق لیگ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر کا استعفیٰ آئے تین ہفتے گزرنے کے باوجود ابھی تک چوہدری برادران سے اس بارے میں خود ملاقات نہیں کی۔ حالیہ دنوں میں جب وزیر اعظم لاہور کے ایک روزہ دورے پر آئے تو ’’امت‘‘ کو ق لیگ کے معتبر ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ وزیر اعظم اور چوہدری برادران کے درمیان ملاقات ہو سکتی ہے۔ لیکن ق لیگ کی توقعات کے باوجود ملاقات نہیں ہوئی۔ اب بھی وزیر اعظم نے اس مسئلے کے حل کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہی فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔ جنہوں نے مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتوں میں معاملات کو سنبھالا ہے۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز بھی مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی کی وزیر اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے۔ پنجاب میں ہونے والی حالیہ دنوں کی ملاقاتوں کا ہدف پنجاب کی حد تک تحفظات کا ازالہ تھا۔ مرکز کے حوالے سے پی ٹی آئی کے بارے میں ق لیگ کے تحفظات پر چوہدری برادران وزیر اعظم سے براہ راست ملاقات میں ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب ق لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران جس طرح تصادم سے گریز کو اپنی سیاسی زندگی میں اہمیت دیتے ہیں۔ اسی حکمت عملی پر گامزن رہتے ہوئے پی ٹی آئی سے تصادم کی صورت حال بھی نہیں بننے دیں گے۔ تاہم حکمران اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے طے شدہ امور پر نہ صرف عمل یقینی بنوائیں گے، بلکہ ق لیگ کے پنجاب میں گورننس کے تجربے کا بھی اظہار کرتے رہیں گے۔ ذرائع کے بقول چوہدری برادران پنجاب کی سطح پر مونس الٰہی کو زیادہ متحرک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کی کوشش اور حکمت عملی یہ ہے کہ گورنر یا وزیر اعلیٰ کے ساتھ جب بھی اتحاد کے حوالے سے کوئی مسئلہ پیدا ہوگا تو مونس الٰہی ہی ق لیگ کی نمائندگی کریں گے۔ جیسا کہ چوہدری پرویز الٰہی کی عمرے پر موجودگی کے باعث مونس الٰہی نے کامیاب مذاکرات کرکے پنجاب میں ق لیگ کے لئے طے شدہ دوسری وزارت بھی حاصل کرلی ہے اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بائو رضوان کو وزیر بنوالیا ہے۔ کامیاب مذاکرات کے بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے گزشتہ روز (جمعہ کی) صبح ہی ق لیگ کے اس نئے وزیر کا حلف بھی لے لیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حق میں ق لیگ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے حالیہ بیان کے بارے میں مسلم لیگ (ق) کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کا بیان جنوبی پنجاب کے پس منظر میں تھا۔ چونکہ طارق بشیر بھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے انہوں نے اپنی ذاتی رائے کے طور پر عثمان بزدار کے حق میں بیان دیا ہے۔ ق لیگ کی پالیسی نہیں ہے ۔ البتہ حالیہ دنوں میں ہونے والے مذاکرات کے بعد پنجاب میں ق لیگ کے وزرا کے محکموں اور کاموں میں کوئی رکاوٹ پیدا ہونے نہیں دی جائے گی۔ ق لیگ کے دونوں صوبائی وزیر اپنے محکموں کی حد تک خود مختار ہوں گے ۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد چلتا رہے گا۔ تاہم جہاں جہاں تحفظات آئیں گے، ان کا ذکر بھی کرتے رہیں گے۔ اس بارے میں پی ٹی آئی کے ذرائع نے کہا کہ ق لیگ والوں کو اچانک پریشانی کیوں ہو رہی ہے، اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ ادھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ق لیگ کے اپنی قیادت کو استعفی دینے والے صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر عمرہ سے واپسی پر پھر سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔
٭٭٭٭٭