نذر الاسلام چودھری
آسکر گریمی اور گولڈن گلوب جیسے ایوارڈز حاصل کرنے والے عالمی شہرت یافتہ بھارتی میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمن کی بیٹی خدیجہ رحمان کے حجاب سے انتہاپسند ہندو بھڑک اٹھے۔ تاہم اے آر رحمان نے اپنی صاحبزادی کے با حجاب پردے پر تنقید کرنے والے ہندوئوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اپنی صاحبزادی کے نقاب اور پردے پر فخر ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ حجاب کرے یا برقعہ پہنے۔ اس معاملے پر کسی کو بھی تنقید یا انگشت نمائی کا کوئی حق نہیں۔ بھارتی جریدے ٹیلیگراف نے بتایا ہے کہ سماجی رابطوں کی سائٹس پر اپنے طوفان بد تمیزی میں ہزاروں انتہاپسند ہندو صارفین کا کہنا تھا کہ برقعہ اور نقاب ہماری ثقافت نہیں اور ایک بڑی تقریب میں قدامت پرستی کے ذہن کے ساتھ شرکت اچھی بات نہیں ہے۔ منگلورو نیوز نے بتایا ہے کہ اے آر رحمان کی صاحبزادی خدیجہ ایک ماہر گلوکارہ ہیں اور وہ موسیقی کا شوق بھی رکھتی ہیں۔ لیکن انہوں نے برقعہ اور پردے کو اپنی شناخت بنایا ہے جس کو بھارتی انڈسٹری میں پسند نہیں کیا جارہا ہے۔ اپنے بیان میں خدیجہ رحمان کا استدلال تھا کہ ان کے والد پر مخالفین اور ناقدین کی جانب سے دوغلے پن کے جو الزامات لگائے گئے ہیں، وہ غلط ہیں۔ ان کے والد نے ان پر یا کسی بھی فیملی ممبر پر کوئی زور زبردستی نہیں کی ہے کہ وہ کیا پہنیں اور کیا نہ پہنیں؟ نقاب اوڑھنا میرا پنا فیصلہ ہے اور میں اس میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ تامل انٹرٹینمنٹ نیوز نے بتایا ہے کہ اے آر رحمن پر ذاتی حملوں اور ان کی بیٹی کے نقاب پر تنقیدی مہم کے جواب میں سوشل میڈیا کے مسلم صارفین نے ان کا دفاع کیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اے آر رحمن کی بیٹی کے نقاب اور برقعہ پر تنقید کا جواب بھی زبردست ہے جس کو پذیرائی مل رہی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق انتہاپسند ہندوئوں میں پہلے بھی اے آر رحمن کے قبول اسلام سے اشتعال پھیلا تھا کہ اتنا بڑا میوزک ڈائریکٹر بتوں اور مورتیوں کی پوجا سے دور ہوکر اسلام کے سائے میں کھڑا ہوگیا ہے۔ جبکہ اب اپنی اسلامی شناخت ظاہر کرنے والی صاحبزادی خدیجہ کے حق میں سینہ تانے کھڑا ہے۔ یہ برہمی انتہاپسند ہندوئوں میں ایک ایسی تقریب کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آنے پر ابھری ہے جو فلم ’’سلم ڈاگ
ملینئر‘‘ کی شاندار کامیابی کے دس برس مکمل ہونے پر منعقد کی گئی تھی۔ اس تقریب میں آسکر ایوارڈ یافتہ میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمن اپنی با حجاب صاحبزادی خدیجہ کے ساتھ شریک تھے۔ تاہم انتہاپسند ہندوئوں کو ان کی صاحبزادی کا نقاب و برقعہ میں ہونا بالکل بھی پسند نہیں آیا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اے آر رحمن کو اور ان کی صاحبزادی خدیجہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کو سماجی رابطوں کی سائٹس پر ’’ٹرول‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اے آر رحمن نے بھی منہ توڑ جواب دیا اور کہا ہے کہ میری بیٹی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ برقعہ پہنے یا نقاب اوڑھے۔ اس سلسلہ میں اس کو انتخاب کا حق حاصل ہے اور کسی کو اس بارے میں تنقید کا کوئی حق نہیں۔ بھارتی میڈیا میں اے آر رحمن کا ایک بیان یہ بھی آیا ہے کہ ہر شخص کو اپنے طریقہ پر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ دوسری جانب خدیجہ نے فیس بک پر اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی تنقید یا دبائو میں ہرگز نہیں آئیں گی۔ ان کے نقاب اور پردہ کرنے کا معاملہ ان کی اپنی ذات سے منسلک ہے اور مخالفین اور ناقدین کو پتا چلنا چاہئے کہ انہوں نے نقاب اور حجاب کا فیصلہ خود کیا ہے۔ اس میں ان کے والد کومورد الزام ٹھہرانا اور تنقید کرنا درست نہیں ہے۔ با پردہ خدیجہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس بات کا مکمل اختیار رکھتی ہیں کہ کس روپ میں دکھائی دیں؟ واضح رہے کہ تقریب میں اے آر رحمن کی بیوی سائرہ اور ایک صاحبزادی رحیمہ نے برقعہ یا نقاب نہیں پہنا تھا لیکن دوسری صاحبزادی خدیجہ نے برقعہ پہنا ہوا تھا اور چہرے کو نقاب میں چھپایا ہوا تھا۔ وہ بڑے اعتماد کے ساتھ اسٹیج پر بھی تشریف لائیں جہاں ان کی کئی تصاویر ان کے والد کے ساتھ اتاری گئیں۔ واضح رہے کہ اے آر رحمن کا پورا نام اللہ رکھا رحمان ہے۔ انہوں نے 23 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔
٭٭٭٭٭