امت رپورٹ
کراچی کے ساحلی علاقوں میں مضر صحت گھی اور تیل تیار کرنے کا کام عروج پر پہنچ گیا۔ خالی پلاٹوں پر بھٹیوں میں مچھلی کی آنتوں، مرغی کے پروں اور مردہ جانوروں کی چربی اور ہڈیوں سے گھی اور تیل نکالا جارہا ہے۔ علاقہ پولیس لاکھوں روپے ہفتہ وار بھتہ وصول کر کے اس غیر قانونی کام کرنے اور انسانی جانوں کی دشمن مافیا کے 5 گروپوں کے لوگوں کو سرپرستی فراہم کر رہی ہے۔ ان بھٹیوں سے نکالا گیا گھی اور تیل دوسرے کارخانوں میں بھیجا جاتا ہے، جہاں سے ریفائن کر کے اسے شہر بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ ہزاروں کلو گرام گھی تیل صنعتی زونز میں واقع چھپرا ہوٹل، کچی آبادیوں کے ہوٹل اور سموسے، پکوڑے بنانے والے بھی سستے داموں خریدتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مضر صحت گھی اور تیل سے دل کے امراض اور دیگر مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ پولیس کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت، فوڈ ڈپارٹمنٹ اور کے ایم سی کا عملہ بھی اس دھندے میں ملوث گروپوں سے بھتہ وصول کرنے والوں میں شامل ہے۔ ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ اور سکھن نالے تک 15 سے زائد مقامات پر یہ غیرقانونی کام جاری ہے۔
واضح رہے کہ ان علاقوں میں پولیس اور ساحلی بااثر افراد کی سرپرستی میں ایرانی اسمگل شدہ تیل، گٹکے اور منشیات کے نیٹ ورک بھی چل رہے ہیں۔ کراچی پولیس ایک جانب اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں ناکام ہے تو دوسری جانب شہر کے مضافاتی اور ساحلی علاقوں میں پولیس شہریوں کی صحت داؤ پر لگانے والے لالچی لوگوں کی سرپرستی کر کے رقم وصول کر رہی ہے۔ ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ کے ساحلی علاقے، بھوسہ منڈی، سلاٹر ہاؤس کے عقب اور سکھن نالے کے قریب ساحلی علاقے میں جہاں پولیس کی سرپرستی میں منشیات اور گٹکے کے کارخانے قائم ہیں۔ وہیں مضر صحت گھی اور تیل بنانے کا کام بھی عروج پر پہنچ گیا ہے۔ ان غیر قانونی کاموں کی سرپرستی جہاں پولیس کر رہی ہے، وہیں بعض مقامی با اثر افراد بھی آشیرواد دے رہے ہیں۔ جبکہ فوڈ ڈپارٹمنٹ، محکہ صحت کے افسران اور ضلعی کونسل کے لوگ بھی بھتے کے عوض آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ ابراہیم حیدری میں ہڈی مل کے قریب سے چشمہ گوٹھ کے سامنے تک غیر قانونی گھی اور تیل کی فیکٹریاں بنی ہوئی ہیں۔ جہاں مرغی کے پروں، ساحل پر مرنے والے آبی جانوروں اور بڑے جانوروں کی ہڈیوں سے تیل نکالا جاتا ہے۔ بااثر افراد اور پولیس کی سرپرستی اور اجازت سے خالی پلاٹوں میں بڑی بڑی بھٹیاں لگا کر تیل اور گھی حاصل کیا جاتا ہے۔ ابراہیم حیدری میں صنعتی زون کی اندر گلیوں اور سڑکوں کے کنارے کڑھاؤ لگا کر یہ کام کیا جارہا ہے۔ جبکہ ابراہم حیدری میں ریڑھی روڈ پر علی گوٹھ، چشمہ گوٹھ اور سڑک کے کنارے اطراف میں بھٹیاں لگائی گئی ہیں۔ شہر بھر سے گاڑیاں مرغی کے پر، بڑے جانوروں کی چربی، ہڈیاں اور دیگر اشیا اٹھا کر لاتی ہیں۔ یہاں دو طریقے سے گھی اور تیل نکالا جاتا ہے۔ بوائلر میں ہڈیاں اور پر ڈال کر نیچے آگ لگائی جاتی ہے اور ہلکا ہلکا پانی ڈالا جاتا ہے۔ پھر نکلنے والا تیل جو نیچے کڑھاؤ میں آتا ہے، اس کو ڈرم میں ڈال کر ریفائن کرنے والے کارخانے میں بھیجا جاتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ مرغی کے پر 5 روپے کلو اور ہڈیاں 3 روپے کلو تک غیر قانونی گھی اور تیل فیکٹری والے خریدتے ہیں۔ جبکہ کباڑی نیٹ ورک کے لوگ مردہ جانوروں کے پنجر اور ہڈیاں سستے داموں انہیں دیتے ہیں۔ جبکہ آگے ریفائننگ کارخانے والے اس مال میں کیمیکل ملا کر اس کو ریفائن کرتے ہیں اور پھر یہ گھی، تیل 50 سے 70 روپے کلو تک فروخت ہوتا ہے۔ معروف گھی اور تیل کی کمپنیوں سے ملتے جلتے ناموں والے بڑے کنستروں میں یہ تیل اور گھی شہر بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ ٹھیلوں، پتھاروں پر سموسے، پکوڑے، مچھلی والے، پاپڑ والے، صنعتی زون کے ہوٹل والے، شہر میں کوچ اڈوں، ریلوے اسٹیشن کے اطراف ہوٹلوں والے، کچی آبادیوں کے ڈھابوں والے یہ تیل اور گھی استعمال کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق لانڈھی بھینس کالونی، مویشی منڈی اور اطراف کی آبادیوں میں روزانہ 300 سے زائد بھینس، گائے، بکرے، دنبے، بھینس اور گائے کے بچے مرتے ہیں۔ مخصوص مافیا کے لوگ پہلے ان کی کھال اتار کر فروخت کرتے ہیں پھر ان کی لاشوں کو بھوسہ منڈی کے عقب، سلاٹر ہاؤس کے عقب اور سکھن نالے کے ساحل علاقوں میں بھٹیوں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جہاں بھٹیوں میں آگ جلا کر کڑھاؤ میں ان کی چربی سے آئل اور گھی نکالا جاتا ہے۔ مضر صحت گھی، تیل بنانے والے ویسے تو کئی گروپ ہیں۔ تاہم 5 گروپس زیادہ سرگرم ہیں۔ ان میں خالد خان، جاوید عرف جیدا، بکھا (BAKHA)، علی خان اور گل محمد عرف شاہ جی کے گروپ زیادہ سرگرم ہیں۔ ان کے نیٹ ورک میں بھینس کالونی، سکھن، مویشی منڈی، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ اور لانڈھی تک 200 سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ ابراہیم حیدری، سکھن، زمان ٹاؤن، قائد آباد اور دیگر تھانوں کی پولیس ان سے لاکھوں روپے ہفتہ وار بھتہ وصول کرتی ہے۔
مضر صحت گھی اور تیل کے حوالے سے جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر عابد حسنین کا کہنا تھا کہ ان بھٹیوں اور فیکٹریوں سے جو تیل، گھی حاصل کیا جاتا ہے، یہ انسانی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ اس مافیا کے لوگوں نے شہریوں کی صحت اور زندگی داؤ پر لگا رکھی ہے۔ شہر میں اس طرح کی کھانے پینے کی اشیا سے جہاں دل کے امراض بڑھ گئے ہیں، وہیں خطرناک حد تک گردوں، جگر، معدے اور دماغ کے امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ ہیپا ٹائٹس کے کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر یوسف کا کہنا تھا کہ ’’مضر صحت گھی اور تیل سے گلے اور سینے کے امراض بڑھ رہے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭