مرزا عبدالقدوس
ساہیوال سانحہ میں پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے خلیل احمد اور محمد ذیشان کے اہلخانہ ذہنی کرب کے علاوہ شدید مالی پریشانی اور مشکلات سے بھی دو چار ہیں۔ کیس میں کوئی پیشرفت نہ ہونے اور روزانہ اعلیٰ افسران سمیت مختلف مقامات پر پیش ہونے کی وجہ سے چند ہزار روپے ماہانہ کا روزگار بھی چھوٹ گیا ہے۔ وکیلوں کو دینے کیلئے پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ ایک خاندان کو بیرسٹر احتشام جیسے ہمدرد وکیل کی مفت خدمات حاصل ہیں، جس پر وہ ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہے۔ اور دوسری فیملی کے وکیل کی فیس ان کا قریبی رشتہ دار ادا کر رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اس سانحے میں جاں بحق افراد کے ورثا کو فی کس دو دو کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن تاحال یہ امدادی رقم متاثرہ خاندانوں کو نہیں ملی۔ کسی حکومتی ذمہ دار نے متاثرہ خاندانوں سے ان کی مالی مشکلات اور مسائل کے بارے میں پوچھا تک نہیں ہے۔ مقتول خلیل احمد کے بچوں کے سر سے نہ صرف باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ بلکہ وہ اس سانحے کے نتیجے میں ماں کی شفقت اور بڑی بہن کی محبت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ خلیل احمد کے خاندان والوں نے ان بچوں کی تعلیم کا سلسلہ کسی حد تک شروع کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ نو سالہ حمیر کو پڑھانے کیلئے اس کی ٹیچر گھر پر آرہی ہے۔ حمیر چوتھی کلاس کا طالب علم ہے۔ اس کی چھوٹی بہنوں منیبہ اور ہادیہ نے بھی چند دن قبل اسکول جانا شروع کر دیا ہے۔ ان یتیم بچوں کی ضعیف دادی اور دادا کو ستر پچھتر سال کی عمر میں جواں سال بیٹے اور اس کے خاندان کے بہیمانہ قتل کا دکھ برداشت کرنا پڑا۔ تینوں بچے نہ صرف ان کی، بلکہ اپنے تایا اور چچاؤں کی آنکھ کا بھی تارا ہیں۔ وہ ان معصوم بچوں کی خواہشات پوری کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ مقتول خلیل احمد کے چھوٹے بھائی جلیل احمد کسی کی دکان پر موٹر مکینک کا کام کر کے ماہانہ 8 ہزار روپے کماتے تھے۔ لیکن اس سانحے کے بعد آئے روز مختلف سرکاری دفاتر، پولیس افسران اور وکیلوں کے پاس چکر لگانے اور انکوائریاں بھگتنے کی وجہ سے ان کی ملازمت بھی ختم ہوگئی اور آمدن کا واحد ذریعہ بند ہوگیا ہے۔ مقتول خلیل احمد کی محلے میں دکان تھی۔ اب اس دکان پر ان کے دو چھوٹے بھائی نعیم اور عمران بیٹھتے ہیں۔ 33 سالہ نعیم کینسر کا مریض ہے۔ شوکت خانم اسپتال نے بہت پہلے اس کا علاج کرنے سے انکار کردیا تھا۔ کچھ عرصے سے وہ جناح اسپتال سے ادویات لے رہا ہے، لیکن افاقہ نہیں ہو رہا۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مشیر شہباز گل نے اس کا علاج کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن دو کروڑ روپے کی مالی امداد کی طرح یہ وعدہ کب وفا ہوگا؟ اس بارے میں غریب اور لاچار خاندان کو امید ہے کہ شاید کبھی یہ معجزہ ہو ہی جائے۔ خلیل مرحوم سمیت پانچ بھائی تھے۔ چھ مرلے کے مکان میں ہر بھائی کی فیملی کا ایک ایک کمرہ ہے۔
مقتول خلیل احمد کے بھائی جلیل احمد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر احتشام امیر الدین کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ’’وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہمارا کیس پوری دلچسپی سے لڑ رہے ہیں۔ ہم جب بھی ان سے رابطہ کرتے یا ملتے ہیں تو وہ انتہائی ہمدردی کے ساتھ ہم سے بات کرتے ہیں اور تسلی دے کر مطمئن کرتے ہیں‘‘۔ جلیل احمد نے کہا کہ ’’ہمیں کسی جانب سے کوئی دھمکی نہیں ملی۔ نہ کسی نے ہمیں ہراساں کیا ہے۔ البتہ ہمارے ساتھ جو ظلم ہوا اور اب تک اس کیس کو صحیح سمت میں آگے نہ بڑھانے کیلئے جو کچھ ہورہا ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ ہم اس حوالے سے بہت پریشان ہیں۔ کسی حکومتی شخصیت نے ہماری مالی مدد نہیں کی۔ اس سانحے کے بعد میری چند ہزار روپے کی ملازمت بھی چھوٹ گئی ہے۔ حکومت کے وزیروں اور مشیروں نے جو وعدہ کئے تھے، ان میں سے کوئی ابھی تک پورا نہیں ہوا‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں جلیل احمد نے بتایا کہ ’’میں سانحے میں جاں بحق ہونے والے محمد ذیشان کو بچپن سے جانتا تھا۔ اس کی ساری زندگی ہمارے ساتھ گزری۔ میری دکان کے نزدیک اس کا گھر ہے۔ میں دن میں کئی بار اسے دیکھتا تھا اور اکثر ہم دونوں گپ شپ بھی کرتے تھے۔ میں نے نہ اس کی کوئی مشکوک سرگرمی دیکھی اور نہ کسی سے اس بارے میں کچھ سنا تھا۔ اس کا پورا خاندان انتہائی شریف ہے اور وہ اچھے لوگ ہیں۔ ان پر لگایا گیا الزام بالکل غلط اور لغو ہے‘‘۔
واضح رہے کہ محمد ذیشان مرحوم کا بھائی احتشام پنجاب کی ڈولفن فورس میں ملازم ہے اور اب بھی روزانہ ڈیوٹی پر جارہا ہے۔ وہ مرکزی آفس میں حاضری لگاتا اور ڈیوٹی دیتا ہے۔ تاہم اس کو باہر ڈیوٹی پر نہیں بھیجا جارہا۔ اس کیس میں ذیشان کی فیملی کے وکیل فرحاد علی شاہ ایڈووکیٹ ہیں، جن کی فیس ادا کرنا احتشام کے بس میں نہیں۔ وہ محض 35 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ سے اپنا گھر بمشکل چلا رہا ہے۔ وکیل کی فیس ذیشان مرحوم کے برادر اِن لاء عبدالشکور نے ادا کی ہے۔ انہوں نے ہی فرحاد علی شاہ ایڈووکیٹ سے رابطہ کرکے بتایا کہ مرحوم ذیشان کے والد کا انتقال ہوچکا ہے، جبکہ بوڑھی والدہ اپنے بیٹے کی المناک موت اور پھر اسے دہشت گرد قرار دیئے جانے پر دل گرفتہ ہیں۔ وہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس تک دہائی دے آئی ہیں کہ ان کے ساتھ یہ دوہرا ظلم نہ کیا جائے۔ لیکن کوئی نہیں جو دکھیاری ماں کی فریاد سن کر اس کو انصاف دلائے۔ محمد احتشام نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ڈولفن فورس میں اپنی ڈیوٹی پر جارہا ہوں۔ اس واقعہ کے بعد مجھ سے کسی افسر نے کوئی خاص سوال جواب نہیں کئے۔ البتہ کل (جمعہ) کو انٹیلی جنس کے افراد گھر پر آئے تھے اور انہوں نے مجھے سے چند سوالات میرے اور خاندان کے بارے میں کئے تھے۔ یہ وہی سوالات ہیں، جن کے جواب پہلے سے سب کو معلوم ہیں‘‘۔ محمد احتشام نے مزید کہا کہ ’’کیس کو طول دیکر دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ آئے روز عدالتوں میں جانا بہت مشکل ہے۔ جو لوگ ہماری حمایت کر رہے ہیں ان کے شکر گزار ہیں۔ مرحوم بھائی ذیشان کی بیٹی ابھی کم سن ہے، اسے زیادہ احساس نہیں۔ لیکن میری والدہ اور بھابھی اب بھی نارمل نہیں ہیں اور ہر وقت روتی رہتی ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭