سیدنا جاء بن حیوۃؒ کہتے ہیں:
اس کے بعد میں امیرالمؤمنین سلیمان بن عبدالملک کے کمرے میں گیا، تو ان کے انتقال کا وقت قریب تھا، جب موت کی بے ہوشی طاری ہوئی تو میں نے ان کے چہرے کا رخ قبلہ کی طرف کردیا، تو وہ مجھ سے کہنے لگے، اس حال میں کہ سانس بڑی مشکل سے آرہا تھا: ’’اے رجاء بن حیوۃ! اس کے بعد وقت نہیں رہے گا۔‘‘
دو دفعہ یہ کلمہ دہرایا اور تیسری دفعہ کہا:
’’رجاء !اب وقت آگیا ہے، کہ کچھ کر سکتے ہو تو کرو۔‘‘
پھر کلمہ شہادت پڑھااور میں نے ان کا چہرہ دوبارہ قبلہ رخ کیا اور ان کا انتقال ہوگیا۔
میں نے ان کی آنکھیں بند کیں اور ان پر سبز چادر ڈال دی، پھر دروازہ بند کیا اور باہر نکل آیا۔ امیرالمؤمنین کی زوجہ محترمہ نے خادم کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ پوچھ آؤ کہ اب ان کی طبیعت کیسی ہے اور کیا میں ان کا حال دریافت کرنے کمرے میں آسکتی ہوں؟
میں نے پیٖٖغام رساں کیلئے دروازہ کھول دیا اور کہا: دیکھئے بہت دیر جاگنے کے بعد ابھی ابھی آرام کی نیند سوئے ہیں، برائے مہربانی انہیں جگایئے نہیں۔ اس نے واپس جا کر ملکہ کو بتایا کہ امیر المؤمنین گہری نیند سوئے ہیں، بیدار کرنے پر ان کی طبیعت ناساز ہو جائے گی اور انہیں یقین ہوگیا کہ میرے شوہر سوئے ہوئے ہیں، پھر میں نے احتیاط سے دروازہ بند کر دیا اور قابل اعتماد چوکیدار کو دروازے پر بٹھاتے ہوئے کہا:
جب تک میں نہ آجاؤں، یہاں سے ہٹنا نہیں اور کوئی بھی آئے، دروازہ کسی کیلئے بھی کھولنا نہیں۔ یہ ہدایات دے کر میں وہاں سے چل دیا۔ راستے میں چلتے ہوئے لوگوں نے مجھ سے پوچھا: امیرالمؤمنین کا کیا حال ہے؟
میں نے کہا: جب سے وہ بیمار ہوئے ہیں، اس کے بعد پہلی مرتبہ آرام کی نیند سوئے ہیں۔ پھر میں نے سپاہیوں کے سربراہ کعب بن حاضر سے کہا:
امیرالمؤمنین کے خاندان کو دابق کی مسجد میں جمع کرو، جب سب مسجد میں اکٹھے ہوگئے۔ میں نے کہا: امیر المؤمنین نے اس خط میں جس شخص کا نام لکھا ہے، اس کے ہاتھ پر بیعت کرو، انہوں نے کہا پہلے ہم گم نام بیعت کر چکے ہیں، کیا اب دوبارہ بیعت کریں؟
میں نے کہا: یہ امیر المؤمنین کا حکم ہے، جب ان میں سے ایک ایک آدمی نے بیعت کرلی تو میں نے کہا: ’’امیر المؤمنین کا انتقال ہوگیا اور ہم تو خود خدا کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
اور پھر میں نے خط کھول کر اس کی عبارت سب کو سنا دی، جب سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کا نام آیا تو ہشام بن عبد الملک نے احتجاج کرتے ہوئے کہا: ’’ہم بیعت نہیں کریںگے۔‘‘
میں نے کہا: خدا کی قسم! اگر تم نہیں کرو گے تو میں تمہاری گردن اڑادوں گا، اٹھو ابھی میرے سامنے بیعت کرو۔
وہ پاؤں پٹختا ہوا اور اناللہ …اٹھا اور دل نہ چاہتے ہوئے بھی بیعت کرلی اور وہ اس بات پر افسوس کر رہا تھا کہ بنو عبد الملک سے خلافت رخصت ہوگئی۔
ادھر حضرت عمر بن عبد العزیزؒ بھی اناللہ… مسلسل پڑھ رہے تھے، کیوں کہ انہیں خلافت کی کرسی پر بیٹھنا بالکل پسند نہ تھا اور کہہ رہے تھے یہ بوجھ میری مرضی کے خلاف میرے کمزور کندھوں پر لاد دیا گیا ہے۔ دونوں ’’انا للہ…‘‘ پڑھ رہے تھے اور دونوں کے مقاصد الگ الگ تھے۔
لیکن حضرت رجاء بن حیوۃؒ کی دانش مندی سے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ مسلمانوں کے امیر المؤمنین بن گئے اور ان کی وجہ سے اسلام کو بہت ترقی ہوئی اور یہ نیک شخصیت دین کے لئے روشن مثال ثابت ہوئی۔ خوش خبری ہو امیرالمؤمنین سلمان بن عبدالملکؒ کیلئے۔ حق تعالیٰ جنت نصیب کرے، انہوں نے خلافت کی کرسی ایک صالح انسان کے سپرد کرکے رب تعالیٰ کے ہاں بلند مقام حاصل کیا اور اپنی ذمہ داری پوری ادا کر دی اور ان کے با وفا وزیر ابو مقدام رجاء بن حیوۃؒ مبارک باد کے مستحق ہیں، جنہوں نے تمام مسلمانوں کیلئے نصیحت کا حق ادا کر دیا اور ان کے خاص مشیروں کو بھی رب تعالیٰ جزائے خیر عطا کرے، جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو خوب نبھایا۔ بلاشبہ خوش نصیب حکمران اپنی عقل و سمجھ داری سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔
انسان کو دنیا میں جو بھی کام کرنا چاہئے، وہ مشورے اور استخارے کے بعد کرنا چاہئے حدیث شریف میں اس کی فضیلت یہ آتی ہے۔ ترجمہ: وہ ناکام نہیں ہوگا جس نے استخارہ کیا وہ نادم نہیں ہوگا جس ے مشورہ کیا۔ مثلاً کسی مدرسہ یا اسکول میں داخلہ لینا ہے تو اس لائن کے لوگوں سے مشورہ کرلیں اور پھر استخارہ کرلیں۔ پھر جس کام کی طرف ہمت ہو، یعنی دل کھلے وہ کرلیں، کہیں رشتہ ڈالنا ہو، کہیں جانا ہو، الغرض جو بھی کام ہو، مشورہ و استخارہ ضرور کرلیں۔ مشورہ تو اس لائن کے سمجھ دار اور تجربہ کار دوستوں یا اپنے بڑوں سے کریں اور استخارہ تو کسی وقت بھی دو رکعت نفل پڑھ کر کرلیں، اگر نفل کا وقت نہ ہو اور جلدی فیصلہ کرنا ہو تو صرف دعا مانگ لیں، اگر لمبی دعا کا وقت نہ ہو تو درود شریف پڑھ کر مختصر دعا مانگ لیں۔ مختصر دعا یہ ہے۔ ’’اللھم خر لی و اختر لی‘‘
ترجمہ: ’’اے اللہ میرے لئے پسند فرمادے اور اختیار فرما دے۔‘‘
اس سے دل کا اطمینان نصیب ہوگا۔ ندامت و پریشانی سے بچیں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ کوئی اہم کام کرنے میں جلدی نہ کریں، استخارہ و مشورہ ضرور کریں۔
مشورہ کے وقت کی دو دعائیں مندرجہ ذیل ہیں:
ترجمہ: ’’اے اللہ! میرے مقدر کی بھلائی میرے دل میں ڈال دے اور مجھ کو میرے نفس کی بدی سے بچا لے۔‘‘
دوسری دعا بہت پیاری اور اہم دعا ہے، حضرت عمران بن حصینؓ کو نبی کریمؐ نے یہ دعا سکھائی تھی۔
قصہ یہ ہوا کہ حضرت عمران بن حصینؓ سے نبی کریمؐ نے فرمایا: تم اسلام لے آؤ تو تمہیں ایک دعا سکھلاؤںگا، وہ اسلام لائے تو پوچھا کون سی دعا ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہ دعا ہے۔
ترجمہ: ’’اے اللہ! میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش کا طالب ہوں اور اپنے معاملے میں کام یابی کی راہوں کی ہدایت مانگتا ہوں اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں تو میری توبہ قبول فرما لے۔‘‘
اگر کسی سے اکیلے میں کوئی بات کہی ہے تو یہ آپ کے پاس امانت ہے، اگر آپ نے کسی کو بتلادیا تو آپ نے خیانت کی اور یہ منافقت کی علامت ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم مسلمانوںکے راز کی دل سے حفاظت کریں، اپنے گھر کی باتیں باہر نہ بتلائیں، دوستوں کی باتیں دوسرے دوستوں کو نہ بتلائیں، کیوں کہ خیانت کرنے والے لوگ نہ ہی دنیا میں کام یاب ہوتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں۔ دو ساتھی بات کررہے ہوں تو بغیر اجازت کے ان کی باتیں نہ سنیں، کوئی کچھ لکھ رہا ہو تو اس کو نہ جھانکیں، دو آدمی فون پر بات کررہے ہوں تو ان کی بات نہ سنیں وغیرہ وغیرہ۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭