ایمسٹرڈیم کی بوڑھی خاتون اپنی داستان بیان کر رہی تھی اور مسجد کے تمام نمازی ہمہ تن گوش ہو کر اس کی باتیں سن رہے ہیں۔ ان مسلمانوں میں سے کوئی اسے نہیں جانتا تھا۔ اسے آج تک کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا۔
اس کا کہنا تھا کہ میں خود کشی کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ گھنٹی کو نظر انداز کر دوں اور خود کشی کر لوں۔ لیکن ادھر گھنٹی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟
لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آ رہا تھا اس دنیا میں تو میرا کوئی بھی نہیں، پھر یہ گھنٹی دینے والا کون ہو سکتا ہے؟
اسی دوران کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا چلو کوئی بات نہیں، میں خود کشی کے پروگرام کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کر دیتی ہوں، چنانچہ میں نے رسی کو گردن سے اتارا، کرسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ نچلی منزل کی طرف چل دی۔
میں نے دروازہ کھولا تو ایک بہت پیارے اور خوبصورت بچے کو دیکھا، جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، مجھے دیکھ کر اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ میں نے آج تک اس عمر کے بچے کے چہرے پر اتنی خوبصورت مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ میں بتا نہیں سکتی کہ وہ بچہ مجھے کتنا پیارا لگا۔
اس کے منہ سے نکلنے والے کلمات نہایت پیارے اور دل کش تھے۔ جس انداز سے اس نے میرے ساتھ گفتگو کی، وہ ناقابل فراموش تھی۔ اس نے مجھ سے کہا: اے معزز اور محترم خاتون! میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو بتا دوں کہ خدا تعالیٰ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔ اس نے ’’جنت میں جانے کا راستہ‘‘ نامی کتاب میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا: اسے اطمینان سے ضرور پڑھئے۔
وہ خوبصورت اور روشن چہرے والا بچہ جدھر سے آیا تھا ادھر ہی واپس چلا گیا، مگر میرے دل میں شدید ہلچل پیدا کر گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نچلی منزل پر ہی بیٹھ کر اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے لگی۔ میں کتاب پڑھتی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کتاب میرے لیے اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔ میں نے جیسے ہی کتاب ختم کی، میرے ذہن میں انقلاب آچکا تھا۔ مجھے روشنی مل گئی تھی۔ میں اوپر والی منزل میں گئی۔ چھت سے رسی کھولی اور کرسی کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہی تھی۔
’’معزز حاضرین!‘‘ اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: ’’میں نہایت سعادت مند اور خوش بخت ہوں کہ میں نے اپنے حقیقی رب کو پہچان لیا ہے۔ میں نے فطرت کو پا لیا ہے۔ میں اب خدا کا شکر کہ مسلمان ہو چکی ہوں۔ اس خدا کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت سے نوازا۔ کتاب کے آخری صفحہ پر اس مرکز کا ایڈریس دیا ہوا تھا، میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کر سکوں، خصوصاً اس ننھے سے داعی کا، جو میرے پاس نہایت ہی مناسب وقت پر آیا۔ بس یہ چند لمحوں کی بات تھی، اگر وہ نہ آتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے ہی والی تھی۔‘‘
لوگ حیران و ششدر ہو کر بڑھیا کی بات سن رہے تھے، جب اس کی بات ختم ہوئی تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو، جس میں آنسو نہ چھلک رہے ہوں۔ مسجد میں تکبیر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ امام مسجد منبر سے نیچے اترے، سامنے والی صف میں ان کا ننھا داعی بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے روتے ہوئے اسے اپنے بازوئوں میں لیا اور سینے سے لگا لیا۔ وہ کہہ رہے تھے: بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے۔ تم صحیح معنوں میں ننھے داعی اور مجاہد ہو۔ مسجد میں شاید ہی کوئی شخص ہو، جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ کاش اس کا بیٹا بھی اس قسم کا داعی ہوتا!!
٭٭٭٭٭