حکایات مولانا رومی

جب ان مسافروں کو اس زمیندار کا گھر سامنے نظر آیا تو وہ اسے اپنا گھر سمجھ کر اس کی طرف لپکے، مگر دروازہ بند پایا۔ اس پر شہری تاجر بڑا حیران ہوا، مگر یہ درشتی کا موقع نہ تھا۔ کیونکہ جب کنویں میں گر پڑیں تو وہاں تیزی کام نہیں آتی۔ اس دیہاتی کو جب ان کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ رُوپوش ہوگیا… انہوں نے دروازے پر دستک دے کر زمیندار کو بلایا۔ مگر اندر سے جواب ملا کہ وہ ان دنوں کسی منزل کو پانے کیلئے چلہ کشی کر رہے ہیں۔ان پر مجذوبیت کا رنگ غالب ہے۔
شہری تاجر اور اس کے بچوں کا بے سہارا قافلہ دروازے کے باہر بھی ٹھہر گیا۔ بچوں کی ساری تمنائیں اور خواہشوں پر پانی پھر گیا۔ ان کے پائوں میں چھالے اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ آرام دہ بستروں پر سونے والوں نے دو رات اور رات کانٹوں پر گزاری۔ تیسرے دن تاجر کی اس روپوش دیہاتی زمیندار پر نظر پڑ گئی۔ سلام دعا کے بعد کہا کہ میں فلاں شخص ہوں جسے آپ نے سالہا سال سے دعوت دے کر گائوں آنے پر مجبور کیا۔ اس دیہاتی نے اسے پہنچاننے سے انکار کردیا۔ دیہاتی نے کہا کہ بھائی! میں تو دن رات خدا کی یاد میں کھویا رہتا ہوں۔ مجھے اپنے وجود کی بھی خبر نہیں۔ اور یہ بھی پتہ نہیں کہ میری ہستی کیا ہے، خدا کے سوا مجھے تو کسی بات کا ہوش ہی نہیں۔
شہری تاجر نے کہا کہ او بھائی! جس کے ہاں سے جو شخص پیٹ بھرے، اس کی آنکھ شرماتی ہے، اور سر نیچا ہوجاتاہے۔ دیہاتی نے شہری تاجر کی باتیں سنی ان سنی کردیں۔ تیسری رات بھی انہوں نے تارے گنتے ہوئے ہی گزار دی۔ چوتھے دن موسم ابر الود تھا۔ شام کو آندھی طوفان نے انہیں آگھیرا۔ سر چھپانے کے لئے جو انہوں نے ٹھکانہ بنا ہوا تھا، وہ اس سے بھی گئے۔ شہری تاجر کہنے لگا کہ شاید قیامت کا وقت آگیا ہے۔ جس طرح شریف لوگ بے بسی میں کمینوں کے محتاج ہو جاتے ہیں اسی طرح شہری تاجر بھی مجبور ہو کر دیہاتی کے دروازے پر گیا اور بہت رویا دھویا۔ بڑی مشکل سے اس دیہاتی کمینے نے دروازہ کھولا۔
شہری تاجر نے مجبور اور بے بس ہو کر کہا کہ بھائی، میں اپنے تعلقات اور جملہ حقوق سے دستبردار ہو جاتا ہوں۔ ہم ایسی سختی کے عادی نہیں تھے، جو ہمیں یہاں دیکھنی پڑی۔ خدا کے واسطے ہمیں راہی مسافر سمجھ کر کوئی چھت والی جگہ دے دو۔ خدا آخرت میں اس کی تجھے جزا دے گا۔ اگر تجھے یہ منظور نہیں تو مجھے قتل کر ڈال، میں اپنا خون تجھے معاف کرتا ہوں۔ اس جاڑے کے موسم میں اب ان معصوم بچوں کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔
دیہاتی میزبان نے کہا کہ ہمارے چوکیدار کا ایک کمرہ ہے۔ وہ رات کو تیر کمان لے کر ہمارے مویشیوں کی حفاظت کرتا ہے تاکہ کوئی جنگلی جانور انہیں نقصان نہ پہنچائے۔ چوکیدار والا کمرہ تم لے لو اور رات کو تیر کمان لے کر اس کی جگہ ڈیوٹی دو۔ شہری تاجر نے کہا کہ میں ایسی سو خدمتیں کرنے کو تیار ہوں۔ اگر جنگلی جانور کی بھنگ بھی میرے کانوں میں پڑ گئی تو آواز کی جگہ تیر چلا کر اسے ہلاک کردوں گا۔ غرض اس وعدے پر وہ اپنے اہل و عیال کو باغبان کی کوٹھڑی میں لے گیا۔
وہ جگہ نہایت تنگ اور مچھروں و پسوئوں کا گھر تھی۔ وہ بے چارے اور مصیبت میں پھنس گئے۔ بہرحال شہری تیر کمان ہاتھ میں لئے اپنا فرض بجا لا رہا تھ کہ آدھی رات گزرنے پر اسے محسوس ہوا کہ بھیڑیا آگھسا ہے۔ اس نے نشانہ جوڑ کر تیر چلایا اور وہ سیدھا نشانے پر جا لگا۔ حیوان زخمی ہو کر گر پڑا۔
گرتے ہی اس کے منہ سے آواز نکلی جس کو سن کر دیہاتی فوراً باہر آیا اور زور زور سے دہائی دینے لگا کہ ارے ظالم یہ کیا غضب کردیا کہ تم نے میرے گدھے کو مار دیا ہے۔ تاجر نے کہا کہ تم اچھی طرح جا کر دیکھ لو، اندھیری رات ہے۔ آندھی طوفان اور بارش میں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔
دیہاتی نے کہا کہ خواہ کیسی زور کی ہوا چل رہی ہو، مجھے اپنے گدھے کی آواز کی ایسی ہی شناخت ہے جیسے شراب اور پانی کی۔ سو جانوروں کے ریوڑ میں بھی میں اپنے گدھے کی آواز پہچان لیتا ہوں۔
یہ سن کر شہری تاجر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس نے دیہاتی کو گریبان سے پکڑلیا اور کہا کہ اے بے حیا تو نے تاریکی میں اور جاڑے کے موسم میں اپنے گدھے کی آواز تو پہچان لی… اور اپنے دس سال کے رفیق کو نہ پہچان سکا… میری مروت اور احسان کو خاک میں ملا دیا اور بہانہ کیا کہ میں مجذوب ہوگیا ہوں، مجھے تو دنیا ومافیہا کی کوئی خبر ہی نہیں۔ مگر آدھی رات کو آواز خرکی شناخت کرلی۔ اپنے آپ کو عاشق الٰہی ظاہر کیا، مگر یارانہ شیطان سے گانٹھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں لوہا موم ہو جاتا تھا، تُو تو موم کو لوہا بنا رہا ہے۔ تیرے جیسے بے وقوف، چال باز اور احسان فراموش سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ حق تعالیٰ مکاروں اور کمینوں اور اسی طرح ہی رسوا کرتا ہے۔
درس حیات:
٭ احمق، بدفطرت اور کمینے انسان سے اگر کوئی بھلا ئی کرو، تو اس کے شر سے بچنا چاہیے۔
دل کے اندھے
ایک دیہاتی کو اپنی پالتو گائے سے بہت محبت تھی۔ دن رات اس کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا اور ہر دم اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا۔ ایک دن گائے کو باڑے میں باندھ کر اچانک ضروری کام سے چلا گیا۔ اتفاق سے اس دن دیہاتی باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔ جنگل کا شیر کئی دنوں سے گائے کی تاک میں تھا۔ اس دن سے موقع مل گیا۔ شیر رات کی تاریکی میں دبے پاؤں آیا۔ باڑے کے اندر گھسا اور گائے کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کر گیا۔ شیر گائے کو کھانے کے بعد وہیں باڑے میں بیٹھ گیا۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ شیر گائے کو کھا کر مست بیٹھا ہوا تھا۔
دیہاتی نے شیر کو اپنی گائے سمجھ کر پیار سے پکارا پھر اس کے پاس بیٹھ کر اس پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ دیہاتی احمق کو اگر پتا چل جاتا کہ وہ جسے اپنی گائے سمجھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا ہے وہ آگے بیٹھا ہوا جنگل کا بادشاہ شیر ہے، تو مارے دہشت کے اس کا جگر پھٹ جاتا اور دل خون ہو جاتا۔
خدا تعالیٰ کا نام ہم نے صرف پڑھا اور سنا ہے اور لفظ خدا صرف زبان سے ہی پکارتے رہتے ہیں۔ اگر اس پاک ذات کی ذرا سی حقیقت بھی ہم پر واضح ہو جائے، جو ہمارا حال ہوگا، ہم اسے نہیں جان سکتے۔ کوہ طور پر تجلی پڑنے سے جو اس کا حال ہوا، اس کی سب کو خبر ہے، اس پر مزید قلم کشائی میری بساط سے باہر ہے۔
درس حیات:
٭ تیرا نفس اس خونخوار شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہے، جسے تو اندھے پن میں فریب خوردہ ہو کر اور گائے سمجھ کر پال رہا ہے۔ اس کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔ ابھی وقت ہے اپنی اصلاح کر لے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment