حضرت جنید بغدادیؒ تقریباً آٹھ سال کی عمر میں اپنے ماموں کی ہدایت پر مشہور فقیہہ حضرت ابوثورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شاگردی کی درخواست کی۔ حضرت ابوثورؒ، حضرت امام شافعیؒ کے شاگرد رشید تھے۔ اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلک کے اعتبار سے حضرت جنید بغدادیؒ ’’فقہ شافعی‘‘ کے پیروکار تھے۔
حضرت ابوثورؒ نے آٹھ سال کے مختصر سے عرصہ میں اپنا سارا علم حضرت جنید بغدادیؒ کو منتقل کردیا، پھر اہل بغداد نے دیکھا کہ ایک بیس سالہ نوجوان بڑی ذہانت کے ساتھ فتوے دیا کرتا تھا۔ بڑے بڑے صاحبان علم جن مسائل کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ پاتے تھے، ان مسائل تک حضرت جنید بغدادیؒ کو رسائی حاصل تھی، یہ قدرت کا عطیہ بھی تھا اور استاد گرامی کی صحبتوں کا فیض بھی۔
علم حدیث اور فقہ حاصل کرنے کے بعد خود حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں، یہ بھی میرے ماموں کی محبت اور التفات کا نتیجہ ہے کہ میں ان علوم کی طرف متوجہ ہوا۔ اگر حضرت سری سقطیؒ میری رہنمائی نہ فرماتے تو میں حدیث اور فقہ سے نا آشنا رہ جاتا اور مروجہ تصوف کی پر پیچ گلیوں میں ساری زندگی بھٹکتا رہتا۔ میں ایک دن حضرت سری سقطیؒ کی خدمت میں حاضر تھا، اچانک ماموں مجھ سے مخاطب ہوئے اور نہایت جذب کے لہجے میں فرمایا:
’’جنید! میں حق تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں ایسا محدث بنائے جو علم تصوف سے بھی آگاہ ہو، مگر ایسا صوفی نہ بنائے جو علم حدیث سے ناآشنا ہو۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ کے اس قول کی وضاحت یہ ہے کہ آپ حدیث و فقہ کے علم کو اولیت دیتے تھے۔ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں ’’میں نے ساری زندگی اپنے محترم ماموں کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھا اور سب سے پہلے حدیث اور فقہ کا علم حاصل کیا، بعد میں حضرت حارث محاسبیؒ کی صحبت اٹھائی اور یہی میری کامیابی کا راز ہے۔ علم تصوف کو قرآن اور سنت کے تابع رہنا چاہئے، جس شخص نے تصوف کے کوچے میں قدم رکھنے سے پہلے قرآن حفظ نہ کیا ہو اور حدیث میں سند حاصل نہ کی ہو، اسے دوسروں کی رہنمائی کا کوئی حق نہیں ہے۔
حدیث اور فقہ میں سند کا درجہ حاصل کرنے کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے حضرت سری سقطیؒ سے عرض کیا: ’’اب میرے لئے کیا حکم ہے؟‘‘
حضرت سری سقطیؒ نے فرمایا: ’’اب تم شیخ حارث محاسبیؒ کی خدمت میں حاضری دو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی حضرت سری سقطیؒ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو یہ ہدایت بھی کی ’’تم شیخ حارث محاسبیؒ سے تصوف کی تعلیم حاصل کرو۔‘‘
الغرض حضرت جنیدؒ بغدادی، حضرت شیخ حارث محاسبیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے۔ حضرت شیخ محاسبیؒ کا آبائی وطن بصرہ تھا، مگر آپ نے بغداد میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ روایت ہے کہ حضرت شیخ حارثؒ کو تبع تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق ’’تبع تابعین‘‘ ان بزرگوں کو کہا جاتا ہے جنہیں ’’تابعین‘‘ کی صحبت کا اعزاز حاصل ہو اور تابعین وہ بزرگ کہلاتے ہیں، جن کی آنکھیں صحابۂ کرامؓ کے دیدار سے منور ہوئی ہوں۔
حضرت شیخ حارث محاسبیؒ کے زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ان کے باپ ستر ہزار دینار چھوڑ کر مرے، مگر آپ نے اتنے بڑے ترکے سے ایک دینار بھی قبول نہیں کیا، جب لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو شیخ حارثؒ نے فرمایا:
’’میرا باپ مجوسیوں کا ہم عقیدہ ہے، اس لئے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
’’مگر بیٹا ہونے کی حیثیت سے اس کی وراثت کے تو آپ ہی حق دار ہیں۔‘‘ رشتے داروں نے توجیہہ پیش کی۔
حضرت شیخ حارث محاسبیؒ نے فرمایا: ’’میرے آقا حضور اکرمؐ کی حدیث ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے، اس لئے میں بھی اپنے باپ کے ترکے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔‘‘
حلال روزی کھانے میں حضرت شیخ حارثؒ کی احتیاط اس درجے کو پہنچ گئی تھی، کہ اگر اتفاق سے کوئی حرام لقمہ آپؒ کے دست مبارک میں آجاتا تو انگلیوں کی ایک مخصوص رگ بے اختیار پھڑ کنے لگتی اور آپؒ فوراً ہاتھ روک دیتے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کو حضرت شیخ حارث محاسبیؒ سے اس قدر محبت تھی کہ آپؒ کو چچا کہہ کر پکارتے تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭