عباس ثاقب
میں نے کہا۔ ’’مسلمان اور سکھ دونوں خدائے یکتا کی عبادت کرتے ہیں۔ دونوں قومیں ایک دوسرے کی فطری اتحادی ہیں۔ جن میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں سب سے اہم اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا دشمن بھی ایک ہے۔ جس سے ہمیں ہر قیمت پر آزادی حاصل کرنی ہے‘‘۔
ڈاکٹر چوہان نے میری تائید کی۔ ’’بلاشبہ اس سچائی کو تسلیم کرنے میں ہی دونوں قوموں کی بھلائی ہے۔ اسی لیے جب امر دیپ بھائی نے آپ کا پیغام مجھے پہنچایا تھا تو خوشی اور جوش کی وجہ سے مجھے رات بھر نیند نہیں آئی تھی۔ دونوں قوموں کے درمیان تعاون کے کئی طریقے سوچتے ہوئے صبح ہوگئی تھی۔ جس میں سب سے خاص بات تو وہی تھی کہ اگر خفیہ پولیس والے ہمارے کسی بندے کے پیچھے پڑ جائیں تو اسے بڑی آسانی سے کچھ مہینوں کے لیے کشمیر میں پناہ دلائی جاسکتی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اس کے علاوہ اگر آپ لوگ ہمارا ساتھ دیں تو جموں و کشمیر میں آباد سکھ بھی آزادی کی جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ اور وہ تربیت اور ہتھیاروں سے لیس ہونے کے بعد ضرورت پڑنے پر یہاں آکر خالصتان کے قیام کی جدوجہد میں بھی شریک ہوسکتے ہیں‘‘۔
تبھی مجھے ایک خیال آیا اور میں نے ڈاکٹر چوہان اور سکھبیر سے بیک وقت پوچھا۔ ’’آپ لوگوں کو یقیناً اندازہ ہوگا کہ آپ کو بہت بڑی فوجی طاقت سے مقابلہ درپیش ہے۔ جو ٹینکوں اور توپوں اور جنگی جہازوں سے لیس ہے۔ ظاہر ہے آپ لوگ چاہے کتنی بھی بڑی تعداد میں ہوں۔ ان معمولی ہتھیاروں سے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کو بھاری ہتھیاروں کی بہت بڑی تعداد درکار ہے۔ کیا آپ اس حوالے سے کچھ کوششیں کر رہے ہیں؟‘‘۔
میرا سوال سن کر وہ دونوں چند لمحوں تک مشورہ طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ مجھے لگا کہ میں نے قبل از وقت یہ موضوع چھیڑ دیا ہے۔ چنانچہ میں نے بات ٹالنے کے لیے کہا۔ ’’اچھا رہنے دیں۔ اس معاملے پر کل اپنی مہم سے واپسی کے بعد تفصیل سے بات کریں گے۔ ویسے ہم لوگ بھی اب تک ہلکے ہتھیار ہی حاصل کر سکے ہیں۔ اگر کہیں سے ہیوی یا کم ازکم لائٹ مشین گنیں ہاتھ لگ جائیں تو ہم قابض ہندوستانی فوج کو مزا چکھا سکتے ہیں‘‘۔
میری بات سن کر ان دونوں نے میری توقع کے عین مطابق صرف تائید میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ ہم دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ تاہم ہر بار گھوم پھر کر نہرو سرکار کی نام نہاد جمہوری حکومت کی طرف سے کشمیر کی مسلمان اکثریت اور سکھ قوم کے خلاف بڑھتی ہوئی زیادتیاں ہماری گفتگو کا محور بن جاتیں۔ شام ڈھلے ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر ڈاکٹر چوہان نے ہوشیار پور واپس جانے کی اجازت طلب کی۔
میں نے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، ان شاء اللہ کل ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہوگی۔ اسے آپ تک کیسے پہنچائیں؟‘‘۔
ڈاکٹر چوہان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اس کے سب طریقے سکھبیر اچھی طرح جانتا ہے۔ میں بے تابی سے تم لوگوں کی طرف سے کامیابی کی اطلاع ملنے کا انتظار کروں گا‘‘۔
میں نے مزید کرید مناسب نہیں سمجھی۔ سکھبیر ڈاکٹر چوہان کو رخصت کرنے کے لیے غالباً ہرمندر صاحب کے بڑے پھاٹک تک گیا تھا۔ کیونکہ اسے واپسی میں بہت دیر لگ گئی تھی۔ اس دوران میں اس کا دست راست شیر دل سنگھ مجھ سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہا۔ اس نے بھی اب اپنے ہتھیار پوشیدہ کرلیے تھے۔ لیکن اسے یقیناً احتیاط سے میری نگرانی کی ہدایت ملی ہوگی۔ اس لیے وہ سکھبیر کے آنے تک وہیں موجود رہا۔
رات کا پہلا پہر ڈھلتے ہی میں نے اپنے آپ کو نیند کے حوالے کردیا اور حسبِ معمول ایک بالکل اجنبی جگہ، اجنبی بستر پر شب بسری کے باوجود مجھے سونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ میرے لحاف سر پر کھینچنے تک سکھبیر اسی کمرے میں موجود تھا۔ تاہم رات کو آنکھ کھلی تو میں کمرے میں اکیلا تھا۔ میں کروٹ بدل کر ایک بار پھر گہری نیند سوگیا۔ علی الصباح جاگا تو سکھبیرکو سامنے والی چارپائی پر سوتے پایا۔ اس وقت شیر دل سنگھ آس پاس کہیں دکھائی نہ دیا۔
تبھی میری نظر سکھبیر کے تکیے کے نیچے سے جھانکتے پستول پر پڑی۔ میں نے بغور سکھبیر کا جائزہ لیا۔ وہ گرد و پیش کی صورتِ حال سے بے خبر گہری نیند میں مست تھا۔ میں آواز پیدا کیے بغیر اپنی چارپائی سے اٹھا اور دبے پاؤں سکھبیر کی چارپائی کی طرف بڑھا اور بڑی آسانی سے پستول اس کے تکیے کے نیچے سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا۔ میں نے حتی الامکان بے آواز انداز میں میگزین نکالا۔ وہ پوری طرح لوڈ تھا۔
میں چند لمحوں تک سکھبیر کا جائزہ لیتا رہا۔ سوتے میں اس کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت نظر آ رہی تھی۔ آخر میں نے پستول اس کی کھوپڑی کے بہت قریب کرتے ہوئے لیور کھینچ کر گولی لوڈ کر دی اور پستول کی بے رحم نال سکھبیر کی چوڑی پیشانی پر رکھ دی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭