ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
نقاد میں شائع ہونے والے قمر زمانی کا اصل مضمون دیکھئے:
ساون کی ایک رات
وہ تاریک اور سنسان رات جب میں اکیلی لیٹی ہوئی کچھ سوچ رہی تھی۔ آہ، وہ رات بھی کیسی عجیب رات تھی۔ بارش کا شور، مگر کس قیامت کا سکون۔ تاریکی، ایسی تاریکی کہ جدھر نگاہ اٹھاکے دیکھو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جل برس رہا ہے۔ کبھی نہ بھولوں گی وہ کڑک اور بجلی، جب میں ایک کونے میں پڑی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اور ہمیشہ یاد رہیں گے وہ بادل، جن کے ساتھ ساتھ میرے سحاب مژہ سے آنسو امنڈے چلے آرہے تھے۔ ’’پیارے تم مجھے ایسے وقت میں بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے تو تمہیں کبھی مجبور نہیں کیا کہ میرے دھڑکتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھو۔ میں نے تو کبھی تم سے یہ آرزو نہیں کی کہ میرے آنسو اپنے دامن سے پونچھ لو۔ پھر میں اس وقت بھی تمہیں کیوں ستانے لگی تھی۔ لیکن تمہارا میرے پاس ہونا، صرف یہ علم کہ تم مجھ سے دور نہیں ہو، میرے لئے تو یہی بہت ہے۔ میں نے تو تمہاری بیگانگی کو بھی ہمیشہ پیار کیا۔ بلکہ تم جس قدر الگ الگ رہے، میری محبت اسی قدر بڑھتی گئی۔ میں تو ہمیشہ یہی سوچ کر تسکین دل کر لیا کہ تم مجھ سے شرماتے ہو، اس لئے پاس نہیں آتے۔ محبت تو کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ مگر یہ نہ سمجھتی تھی کہ اس بھری برسات میں، اس کڑک اور بجلی میں یوں مجھے اس جھونپڑے میں تنہا چھوڑ جاؤ گے۔ مگر میں تو اب بھی شکایت نہ کرتی، اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ نہ جانے تم کہاں اور کس حال میں ہو۔ کہیں تم جنگل میں ابھی تک سفر ہی نہ کر رہے ہو۔ کہیں تم بھیگ نہ رہے ہو۔ میں نے کس قدر روکا کہ نہ جاؤ۔ اپنے خیال سے نہیں، صرف تمہارے خیال سے۔ لیکن تم نے نہ سنا اور چل دیئے۔ کون تھا، آخر اس گاؤں میں ایسا بلانے والا، جس کی دعوت تم ایسے موسم میں بھی رد نہ کر سکے۔ اے غریب رادھا کی تنہا دولت و مسرت، کہیں تم اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا لو کہ وہ مر جائے۔ اس نے تو اپنے غربت کے دن بھی شاہانہ فخر و غرور کے ساتھ کاٹ دیئے۔ صرف اس خیال پر کہ تم اس کے مالک ہو۔ اس نے تمہارے پیچھے دنیا کو ٹھکرا دیا کہ اس کی دولت تو صرف تمہارا ہی حسین چہرہ ہے۔ لیکن سچ بتانا۔ کبھی تم نے بھی اس کو اپنی لونڈی سمجھا یا نہیں۔ تمہیں شاید گرمی کی وہ رات یا نہ ہو، جب تم سو رہے تھے اور تمہیں بیٹھی پنکھا جھل رہی تھی۔ برا ہو اس گھڑی کا، جب صبح ہوتے میں تمہارے اوپر اونگھ گئی اور پنکھے کا کونہ تمہاری پیشانی سے چھوگیا۔ میں چونکی تو کانپ گئی۔ دیکھئے اب کیا ہو۔ اور تم نے غصہ ہوکر میری کلائی مروڑ ڈالی۔ میں سہم کر رہ گئی اور تم پھر سوگئے۔ آہ میں اس وقت کیسی خوش تھی کہ تمہارے ہاتھ تو میری کلائی تک پہنچے۔ اگر تمہاری تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میرا جی چاہتا تھا کہ پھر تمہیں اسی طرح جگاؤں اور تم پھر مجھے سزا دو۔ مجھے مار دو۔ تمہیں پچھلے جاڑوں کی بات یاد نہ رہی ہوگی۔ جب تم شام کو کانپتے ہوئے باہر سے آئے اور مین نے دونوں کمبل تمہارے اوپر ڈال دیئے۔ تم سوگئے۔ میں نے ساری رات یونہی بیٹھ کر کاٹ دی اور کچھ پروا نہ کی کہ ایک رات بغیر کمبل ہی کے سہی، تمہیں تکلیف نہ ہو۔ صبح ہوتے تہمارے آنکھ کھلی تو تم نے مجھے جھونپڑی میں نہ پایا۔ میں باہر کچھ پتیاں جمع کرنے گئی تھی کہ انہیں جلالوں اور سردی کا مقابلہ کر سکوں۔ تم نے آواز دی۔ غصے کی آواز سے پکارا۔ میرے دامن سے پتیاں چھوٹ پڑیں اور ویسی ہی بھاگی چلی آئی۔ میں تمہاری غصہ ناک چتوتیں دیکھتے ہی سہم گئی اور یہ نہ کہہ سکی کہ کیوں باہر گئی تھی۔ آہ، تم نے مجھے مارا۔ اور میں اپنی حماقت پر خوب روئی۔ میں نے اس پر آنسو نہیں بہائے کہ تم نے کبھی مجھ پر رحم نہیں کیا۔ کیونکہ میں نے اپنے تئیں کبھی اس قابل سمجھا ہی نہیں۔ میں نے تو ہمیشہ تمہارا احسان مانا کہ تم نے مجھے چھوڑ نہیں دیا۔ میں کیا کرتی اگر تم مجھے گھر سے نکال دیتے۔ ٹھکرا کر باہر کر دیتے‘‘۔
یہ تھے وہ جذبات، جو اس وقت رات کی تاریکی، بارش کے سناٹے اور جھونپڑے کی تنہائی میں میری آنکھوں سے جاری تھے۔ مجھے نہیں معلوم کس وقت رات کا کس قدر حصہ گزر جانے کے بعد کس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں ڈر گئی کہ یہ کون ہے۔ وہ بھلا کہاں۔ مگر جب آنے والے نے آواز دی تو میں حیران رہ گئی کہ اس وقت کہاں۔ گھبرا کر اٹھی کہ پرمیسر خیریت کرنا۔ میں تو اس وقت سب کچھ بھول گئی اور دروازہ کھولتے ہی نہال ہوگئی، جب دیکھا کہ وہی ہیں اور خیریت سے ہیں۔
میں ڈر رہی تھی کہ کہیں خفا نہ ہوں۔ لیکن میری خوشی کا کیا، ٹھیک تھا جب انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے میرا حال پوچھا۔ میں کانپنے لگی اور رونے لگی۔ میری حالت تو اور خراب ہونے لگی، جب انہوں نے مجھے اپنی آغوش میں لے کر آنسو بھی پونچھے اور دھڑکتے ہوئے سینے پر ہاتھ بھی رکھا۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میں انہیں کیا دے دوں۔ اس محبت کو میں کس طرح اپنی جان سونپ دوں۔ آہ، مجھے کیا خبر تھی کہ کسی اور پر غصہ مجھ پر التفات، دوسرے کی بے وفائی میری وفا، اور اس گائوں کی لڑکی کا فریب میرا خلوص نکلے گا۔
(ایک ہندو لڑکی کی حیثیت سے)
’’قمر زمانی‘‘
جولائی 1917ء کے نقاد میں قمر زمانی کے اس مضمون کے علاوہ کئی مضامین خواتین کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ یہ سب جذبات نسوانی کے ترجمان ہیں اور مولانا نیاز فتح پوی ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭