عمران خان
منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی کی تحقیقات کی آڑ میں اسٹیٹ بینک کا فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، ایف بی آر اور ایف آئی اے افسران، تاجروں اور سرمایہ کاروں کو ہراساں کرنے لگے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے مشتبہ قرار دی جانے والی بینک ٹرانزیکشنز پر تحقیقات کے بجائے پورے پورے اکائونٹس میں برسوں کے دوران ہونے والی ہزاروں بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ حاصل کرکے تمام لوگوں کو نوٹس بھیج دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک جانب نہ صرف انکوائری کا عمل طویل ہوتا جا رہا ہے، بلکہ دوسری جانب ایف آئی اے کے افسران کو شہریوں کو خوفزدہ کر کے رشوت بٹورنے کا موقع بھی مل جاتا ہے جبکہ اصل ملزمان کو بچنے کا موقع مل جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول اس وقت بھی منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی سے متعلق فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے جاری کردہ اربوں روپے کی مشکوک بینک ٹرانزیکشنز کی درجنوں رپورٹوں پر تحقیقات ایف آئی اے اور ایف بی آر میں التواء کا شکار ہیں۔ کئی رپورٹیں 2016ء اور 2017ء میں جاری ہوئیں جن پر انہی برسوں میں انکوائریاں شروع ہوئیں۔ تاہم اب 2019ء شروع ہونے کے باوجود کئی ایسی انکوائریوں پر تاحال تحقیقات نامکمل ہی ہیں۔ ’’امت‘‘ کو ایسی ہی ایک ایس ٹی آر رپورٹ کی تفصیلات حاصل ہوئی ہیں، جس میں شعیب الحق نامی کراچی کے ایک شہری کے حوالے سے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے 2017ء میں جاری کردہ ایس ٹی آر پر ایف آئی اے اسیٹیٹ بینک سرکل میں انکوائری شروع کی گئی۔ مذکورہ شخص کے بارے میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے جو تفصیلات ایف آئی اے کو فراہم کیں۔ ان کے مطابق شعیب الحق کراچی میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہے اور ایس بی رئیل اسٹیٹ کے نام سے اسٹیٹ ایجنسی چلاتا ہے، جبکہ اس کے بینک اکائونٹس میں مسلسل بھاری رقوم کی ٹرانزیکشنز ہوتی رہیں جس میں اس کے بھائی تنویر الحق کے بینک اکائونٹس بھی استعمال ہوئے۔ تاہم تنویر الحق کا لائف اسٹائل اتنی بھاری رقوم سے میل نہیں کھاتا اور نہ ہی یہ ایف بی آر کے ریکارڈ میں ٹیکس دہندہ کی فہرست میں شامل ہیں۔ مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا گیا کہ شعیب الحق اور تنویر الحق کی جانب سے بینک اکائونٹس میں مسلسل 20 لاکھ روپے سے کم ملٹی پل ٹرانزیکشنز کی جاتی رہیں جو ایک مشکوک عمل تھا۔ واضح رہے کہ قوانین کے تحت 20 لاکھ روپے کی ٹرانزیکشنز کی اطلاع بینکوں کو فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو دینا ہوتی ہے، جس سے بچنے کیلئے اکثر شہری 19 لاکھ یا 19 لاکھ 50 ہزار روپے کی ٹرانزیکشنز کرتے ہیں۔ اب یہ مالیت 10 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔
ذرائع کے بقول رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شعیب الحق کی بینک ٹرانزیکشنز کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا ہے کہ اس نے انٹر سورس نامی کمپنی کے ذریعے بھاری مالیت میں حوالہ ہنڈی کی تھی، جس پر شعیب الحق کیخلاف منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی کے الزامات کے تحت تحقیقات کیلئے کہا گیا۔ اس ضمن میں جب ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل سے معلومات لی گئی تو انکشاف ہوا کہ شعیب الحق کے حوالے سے حالیہ ہفتے میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس پر تحقیقات دور کی بات ہے۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ شخص کیخلاف ایسی ہی ایک ایس ٹی آر رپورٹ پر 2017ء سے انکوائری جاری ہے جو ابھی تک مکمل نہیں ہو پائی۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے اور ایف بی آر میں زیر التوا انکوائریوں کی وجہ سے رقوم کی مشکوک منتقلی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں ملوث اصل ملزمان کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور دوسری جانب تاجروں اور سرمایہ کاروں کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں وجوہات جاننے کیلئے جب مختلف افسران اور تاجروں سے بات چیت کی گئی تو اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے طریقہ کار میں موجود خامیاں کھل کر سامنے آئیں۔ معلوم ہوا ہے کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے افسران اپنی جان چھڑانے کیلئے جب کسی شخص کے بینک اکائونٹس میں ہونے والی رقوم کی مشکوک ٹرانزیکشنز کی رپورٹ بناکر اداروں کو بھیجتے ہیں تو اس میں صرف ان مخصوص ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ ارسال کرنے کے بجائے کھاتے دار کے کوائف اور بینک اکائونٹ نمبر ارسال کردیا جاتا ہے۔ اس طرح سے کھاتے دار کے پورے بینک اکائونٹ کو ہی مشکوک بنا دیا جاتا ہے، جس پر انکوائری کیلئے جب معاملہ ایف آئی اے اور ایف بی آر افسران کے پاس پہنچتا ہے تو تفتیشی افسر بینک سے مذکورہ بینک اکائونٹ کا کھاتہ کھلنے سے لے کر آخر تک کا تمام ریکارڈ منگواتا ہے جس پر کھاتے دار کو رقوم بھجوانے والوں اور وصول کرنے والوں کی سینکڑوں یا ہزاروں بینک ٹرانزیکشنز شامل ہوتی ہیں، جس پر تفتیشی افسران کھاتے دار کو رقوم بھیجنے والوں اور وصول کرنے والے تمام افراد کو نوٹس بھیج کر بیان کیلئے بلاتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر قانونی طور پر کاروبار کرنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں، جو کاروباری لین دین کیلئے مشکوک قرار دیئے گئے کھاتے دار کے ساتھ بینک ٹرانزیکشنز کرتے ہیں۔ تاہم ان سے جب ایف آئی اے اور ایف بی آر کے تفتیشی افسران سوالات کرتے ہیں کہ انہوں نے کھاتے دار کو رقم کیوں ٹرانسفر کی یا وصول کی تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ اکثر افراد برسوں اور مہینوں پہلے کی گئی ٹرانزیکشنز کیلئے زبانی بیان دیتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بزنس کیا تھا یا کام کے پیسے دیئے تھے، جس پر ان سے رسیدیں اور دیگر کاغذات طلب کئے جاتے ہیں اور بہت سے افراد وقت زیادہ گزر جانے کی وجہ سے یا کاغذات آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کرپاتے، جس پر انہیں پریشان کیا جاتا ہے۔ اس طرح مہینوں اور برسوں یہ انکوائریاں چلائی جاتی ہیں جس سے اصل ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ حالیہ کیس کے حوالے سے بھی ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ جس شخص شعیب الحق کیخلاف فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے رپورٹ جاری کی گئی وہ اب کینیڈا میں مقیم ہے اور اکثر کراچی آتا جاتا رہتا ہے تاہم قانونی گرفت سے باہر ہے۔
ذرائع کے بقول اسٹیٹ بینک ایف ایم یو کی جانب سے پاکستان کے تمام نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے بینک اکائونٹس میں آنے اور جانے والی رقوم پر نظر رکھی جاتی ہے اور رقوم کی مشکوک منتقلی کی رپورٹیں ایک طے شدہ نظام کے تحت تحقیقات کیلئے ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے علاوہ ایف آئی اے، نیب اور اینٹی نارکوٹیکس فورس کے حکام کو بھیجی جاتی ہیں۔ زیادہ تعداد میں (Suspicious Transaction Reports) ایس ٹی آ ر (STRs) ایف بی آر کے آئی اینڈ آئی ڈائریکٹوریٹ جنرل کو اسلام آباد میں ارسال کی جاتی ہیں، جہاں سے ان رپورٹوں کو ان آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کے متعلقہ زونل ڈائریکٹوریٹس کو ارسال کردیا جاتا ہے تاکہ ان پر مزید تحقیقات کی جاسکیں۔ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کی جانب سے ارساکردہ ایس ٹی آرز اگر صوبہ سندھ کی ہوں تو اسلام آباد ڈی جی آئی اینڈ آئی کے دفتر سے انہیں ڈائریکٹوریٹ آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو کراچی یا حیدر آباد میں ارسال کردیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول اسٹیٹ بینک کے فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ میں نجی بینکوں کے کھاتے داروں کی ٹرانزیکشنز کے موصول ہونے والی Cash Transaction Reports (CTR کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں بیٹھے ہوئے افسران اس کا تعین کرتے ہیں کہ کونسی (CTR) کی رپورٹ ممکنہ طور پر منشیات سے کمائے ہوئی رقم کی ہوسکتی ہے یا پھر ٹیکس چوری، کالے دھن اور کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کی ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد اس کیش ٹرانزیکشن رپورٹ یعنی سی ٹی آر کو دوسرے مرحلے میں ایس ٹی آر یعنی Suspicious Transaction Reportsکا درجہ دے کر متعلقہ اداروں کو ارسال کردیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ اگر آمدنی سے زائد اثاثوں، ٹیکس چوری یا منی لانڈرنگ سے متعلق ہوتو اس کو ایف بی آر اور ایف آئی اے کو بھیجا جاتا ہے۔ اگر یہ رپورٹ ممکنہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے ہوتو اس کو اینٹی نارکوٹیکس فورس کو بھیجا جاتا ہے جبکہ کالے دھن اور کرپشن سے متعلق رپورٹوں کو اس کو نیب حکام کے پاس بھیجا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی سی کے تعاون سے اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ میں دو برس قبل ایک نئے ہائی ٹیک سسٹم کو نصب کیا گیا تھا۔ جس میں UNODC کے تیار کردہ ایک ماہر تجزیاتی قسم کا سافٹ (go AML) نصب کیا گیا جس سے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ پاکستان میں بینکوں، ایکس چینج کمپنیوں اور رپورٹنگ کرنے والے دیگر اداروں سے موصول ہونے والے مشکوک مالی لین دین کا خودکار طور پر جمع کرنے اور تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے بقول اس نظام سے قبل فنانشیل مانیٹرنگ یونٹ میں مالی ڈیٹا کا تجزیہ سالانہ بنیادوں پر کیا جاتا تھا جو سست تھا اور اس میں غلطی کا امکان موجود تھا۔ تاہم نئے نظم کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ نئے ڈیٹا سینٹر میں نصب کسٹمائزڈ سافٹ ویئر اور انتہائی جدید آلات سے فنانشیل مانیٹرنگ یونٹ کو زیادہ تیز رفتار، حساس اور خود کار انداز میں مشکوک لین دین کے تجزیہ میں مدد ملے گی۔ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل سید منصور علی کی جانب سے کئے گئے بلند و بانگ دعوں کے مطابق ہارڈ اور سافٹ ٹیکنالوجی کا یہ امتزاج فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو مطلوبہ صلاحیت فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ تاہم کئی ادارے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے حکام کو لیٹرز ارسال کرچکے ہیں کہ کھاتے داروں کی مشکوک ٹرانزیکشنز کی رپورٹوں کا طریقہ کار درست کیا جائے۔ تاہم ایف ایم یو کے افسران اپنی روش پر قائم ہیں۔٭
٭٭٭٭٭