سانحہ ساہیوال کی تحقیقات نے نیا رخ لے لیا

امت رپورٹ
سانحہ ساہیوال کے عینی شاہد اور مقتول خلیل کے آٹھ سالہ بیٹے عمیر کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان کے بعد کیس کی تحقیقات نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ عمیر کے انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ خلیل، ان کی اہلیہ نبیلہ اور تیرہ سالہ بیٹی اریبہ کو فون پر ملنے والی ہدایت کے بعد قتل کیا گیا۔ جبکہ ابتدائی طور پر رپورٹ ہونے والی یہ بات بھی غلط نکلی کہ فائرنگ کے بعد پولیس اہلکاروں نے بچ جانے والے بچوں کو پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا تھا۔ عمیر کے بیان کے مطابق سفاک اہلکاروں نے زخمی بچوں کو ایک ویران علاقے میں لاوارث چھوڑدیا تھا، تاہم ایک نیک دل راہ گیر انہیں پیٹرول پمپ پر لایا۔
ساہیوال سانحہ میں قتل کئے جانے والے خلیل کے بیٹے عمیر خلیل نے جے آئی ٹی کو جمع کرائے جانے والے اپنے تحریری بیان میں جو انکشافات کئے ہیں، اس سے اس واقعہ میں ملوث اہلکاروں اور پس پردہ کرداروں کی سفاکیت مزید عیاں ہوگئی ہے۔ عمیر نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ’’میں اور میرے والد خلیل ، والدہ نبیلہ ، بڑی بہن اریبہ ، چھوٹی بہنیں منیبہ اور ہادیہ 14جنوری کی صبح 8 بجے لاہور میں اپنے گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ ہمارا ہمسایہ ذیشان گاڑی چلارہا تھا۔ جب ہم ساہیوال کے علاقے قادرآباد پہنچے تو مسلح افراد نے عقب سے ہماری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ اس کے نتیجے میں ہماری گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکراکر رک گئی۔ فوری طور پر چند نقاب پوش پولیس اہلکار دو گاڑیوں میں وہاں پہنچے اور انہوں نے فائرنگ کرکے انکل ذیشان کو ماردیا‘‘۔ عمیر کے بیان کے مطابق ذیشان انکل جب فائرنگ سے دم توڑچکے تھے تو یہی موقع تھا، جب اس کے والد خلیل نے پولیس اہلکاروں سے استدعا کی کہ وہ رقم لے لیں لیکن انہیں نہ ماریں۔ تاہم اس پیشکش کے دوران ایک پولیس اہلکار موبائل فون پر کسی سے بات کرتا رہا۔ اور فون پر بات ختم کرتے ہی اس نے اہلکاروں کو گاڑی پر دوبارہ فائرنگ کا حکم دیدیا۔ عمیر کا کہنا ہے فائرنگ کے نتیجے میں ان کے والد، والدہ اور بڑی بہن فوری طور پر دم توڑگئے جبکہ ایک گولی اس کی ٹانگ میں اور ایک گولی چھوٹی بہن کے ہاتھ میں لگی۔
عمیر کے بیان سے یہ بھی معلوم چلا کہ پولیس اہلکار بچوں سمیت گاڑی میں سوار تمام افراد کو مارنا چاہتے تھے۔ لیکن خوش قسمتی سے تین بچے بچ گئے تو انہیں اسپتال منتقل کرنے کے بجائے زخمی حالت میں ویرانے میں چھوڑ دیا۔ عمیر کے تحریری بیان کے مطابق وہ اور اس کی دونوں چھوٹی بہنیں اس لئے بچ گئیں کہ موت سے قبل اس کی والدہ نے اسے اور چھوٹی بہن ہادیہ کو سیٹ کے نیچے چھپا دیا تھا۔ جبکہ والد نے منیبہ کو بچانے کے لئے خود گولیاں کھائیں۔ فائرنگ کے بعد پولیس اہلکاروں نے اسے اور اس کی دونوں چھوٹی بہنوں کو اسپتال منتقل کرنے کے بجائے ایک صحرائی علاقے میں چھوڑدیا۔ جبکہ وہ اور اس کی چھوٹی بہن تکلیف سے تڑپ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد قریب سے گزرنے والے ایک راہ گیر نے انہیں روتے ہوئے دیکھا تو پیٹرول پمپ پر لے آیا۔ جس پر فائرنگ کرنے والے اہلکار دوبارہ پیٹرول پمپ پر آئے اور پھر ہی انہوں نے تینوں کو مقامی اسپتال منتقل کیا۔
سانحہ ساہیوال کی ادھوری جے آئی ٹی رپورٹ جنوری کے اواخر میں منظر عام پر آئی تھی۔ تاہم جے آئی ٹی ارکان نے صوبائی حکومت سے استدعا کی تھی کہ مزید تحقیقات کے لئے انہیں اور وقت دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق اب واقعہ کی مکمل جے آئی ٹی رپورٹ 14فروری کو پیش کی جائے گی۔ قبل ازیں خلیل کے متاثرہ خاندان نے جے آئی ٹی پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گِل اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما چوہدری اعجاز کی کوششوں سے متاثرہ فیملی نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی لاہور چیپٹر کے بعض اہم رہنما واقعہ کی شفاف تحقیقات کے بعد ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے خواہشمند ہیں، ان میں چوہدری اعجاز بھی شامل ہیں۔ اب تک واقعہ کے حوالے سے جے آئی ٹی کو جو شواہد ملے ہیں اور گواہوں نے جو بیانات ریکارڈ کرائے ہیں، اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ کار سواروں کو ارادتاً قتل کیا گیا حالانکہ ذیشان کو ہلاک کئے جانے کے بعد خلیل کی فیملی کو آسانی سے حراست میں لیا جاسکتا تھا۔ لیکن انہیں بے رحم طریقے سے قتل کرنے کو ترجیح دی گئی۔
’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے تصدیق کی کہ پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی کے کچھ اہم رہنمائوں نے انہیں ہر صورت انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ تبدیل کیا۔ جلیل کا کہنا تھا ’’چوہدری اعجاز نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ انہیں ایک ہفتے کی مہلت دے دی جائے۔ اور وہ لوگ جے آئی ٹی کے سامنے اپنے بیانات بھی قلمبند کروادیں۔ اگر جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد متاثرہ فیملی محسوس کرے کہ انہیں انصاف نہیں مل رہا ، تو وہ رپورٹ کو پھاڑ ڈالیں۔ ایسی صورت میں آپ کا ہاتھ اور ہمارا گریبان ہوگا۔ جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ انصاف پر مبنی دکھائی نہ دینے پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق ان کا مطالبہ تسلیم کرلیا جائے گا۔ ‘‘ جلیل کے بقول چونکہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں اور فون پرہدایت موصول کرنے والے اہلکار ، سب نے اپنے چہرے نقاب میں چھپارکھے تھے۔ لہٰذا آٹھ سال کا چھوٹا سا بچہ عمیر فون کال پر ہدایت لینے والے اہلکار کو کیسے شناخت کرسکتا ہے اور نہ اسے اتنی سمجھ ہے کہ وہ اس اہلکار کے کندھے پہ لگے پھول کو دیکھ کر اس کے عہدے کا اندازہ کرسکتا۔ عمیر نے یہ نشاندہی تو کردی ہے کہ اس کے والدین اور بہن کو فون کال پر ہدایت لینے کے بعد قتل کیا گیا، اب یہ تفتیش کاروں کا کام ہے کہ وہ یہ پتہ لگائیں کہ فون پر ہدایت لینے والے اہلکار کا عہدہ کیا تھا اور اسے ہدایت دینے والا افسرکون تھا؟ یہ معلوم کرنا اس لئے مشکل نہیں کہ جب یہ اہلکار ڈیوٹی پر روانہ ہوئے تھے تو ان کے نام اور ریکارڈ پولیس کے پاس ہوتے ہیں، جبکہ فون کے ڈیٹا سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فائرنگ سے پہلے کس شخصیت کو کال کی گئی تھی۔ جلیل نے بتایا کہ جے آئی ٹی کو اس نے اور اس کے بھائی جمیل کے علاوہ دو کزنوں جبکہ مقتول خلیل کے بیٹے عمیر نے اپنے بیانات جمع کرائے ہیں۔ جلیل کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان اور پی ٹی آئی رہنما چوہدری اعجاز کی یقین دہانی کے بعد انہیں انصاف ملنے کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment