اسلامی فومی اتحاد کا وفد سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لے گا

امت رپورٹ
سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد کا وفد پاکستان آیا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسلامی فوجی اتحاد وفد کے دورہ پاکستان کے مختلف مقاصد ہیں، ان میں ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اتحاد کے بارے میں جو منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اسے زائل اور بدگمانیوں کو دور کیا جائے۔ اس سلسلے میں وفد مختلف سیاسی رہنمائوں سے بھی ملاقات کرے گا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی وفد کی میٹنگ متوقع ہے تاکہ ارکان پارلیمنٹ کو اسلامی فوجی اتحاد کے مثبت مقاصد اور اہمیت سے آگاہ کیا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق جب سے اتحاد وجود میں آیا ہے بعض سیاسی پارٹیوں کے چند رہنما اور ایک مخصوص حلقہ مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ اتحاد کی سربراہی پاکستانی سابق آرمی چیف کو دینے کے نتیجے میں پڑوسی ملک ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ جبکہ یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی جارہی ہے، جیسے یہ اتحاد بنا ہی ایران کے خلاف ہے تاکہ خطے اور بالخصوص مشرق وسطیٰ میں سعودی بالادستی کو قائم کیا جاسکے۔ ذرائع کے بقول اسلامی فوجی اتحاد کی مخالفت کرکے ایران کی ہمدردی میں آنسو بہانے والے بعض پاکستانی حلقوں کو یہ دکھائی نہیں دے رہا کہ ایران نے اپنی بندرگاہ چاہ بہار کا سارا انتظام پاکستان دشمن بھارت کے حوالے کردیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد کے خلاف پاکستان میں کئے جانے والے پروپیگنڈے کا توڑ اس لئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اب یہ اتحاد اپنے اہم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ اسلامی اتحاد کا ریاض میں ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے اور دیگر ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب یہ اتحاد اپنی الگ فوج بنانے کی طرف جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ابھی کوئی سسٹم وضع نہیں کیا گیا ، تاہم مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔ ان میں ایک آپشن یہ ہے کہ فوج کا حصہ بننے کے خواہشمند ارکان ممالک اپنے فوجیوں کی ایک مخصوص تعداد کولیشن آرمی کے لئے دیں۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ اسلامی اتحاد میں شامل تمام 41ممالک اپنی فوج کو بھی اس الائنس کا حصہ بنائیں۔ ایک اور آپشن یہ بھی ہے کہ براہ راست بھرتیاں کرکے ایک نئی فوج بنائی جائے ۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ پاکستان کولیشن آرمی کا حصہ ہوگا لیکن اس میں حاضر سروس فوجیوں کو نہیں بھیجا جائے گا۔ البتہ ریٹائرڈ فوجیوں یا عام لوگوں کو بھرتی کرکے بھیجنے کا آپشن موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق منسٹرز آف ڈیفنس کونسل ،اتحادی فوج کے حتمی خدوخال وضع کرے گی ۔ اس فیصلہ ساز کونسل میں تمام ارکان ممالک کے وزرائے دفاع شامل ہیں۔ اسلامی فوجی اتحاد کے تمام فیصلوں کا اختیار منسٹرز آف ڈیفنس کونسل کو حاصل ہے لہٰذا انفرادی طور پر اسلامی فوجی اتحاد پر سعودی عرب کا کنٹرول نہیں اور نہ ہی سعودی عرب تن تنہا اتحاد پر اپنا کوئی فیصلہ تھوپ سکتا ہے۔
ذرائع کے بقول جب اسلامی اتحاد کی الگ فوج بن جائے گی تو ظاہر ہے اسے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں اور ٹریننگ کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلے میں پاکستان کا رول اہم ہوگا۔ کولیشن فوج کی ضرورت پوری کرنے کے لئے پاکستانی ہتھیار اور دیگر فوجی سازوسامان خریدا جاسکتا ہے جبکہ نئی مجوزہ فوج کو پاکستان ٹریننگ بھی دے سکتا ہے۔ پاکستان کے دورے پر آنے والا اسلامی فوجی اتحاد کا وفد اس سلسلے میں بھی سیاسی و فوجی قیادت سے بات کرے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ اسلامی فوجی اتحاد کے تین ادارے بنائے جاچکے ہیں۔ ان میں ایک انٹیلی جنس کا محکمہ ہے۔ اس میں بھی ارکان ممالک کے لوگ شامل کئے جائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف اس بڑے انٹیلی جنس نیٹ ورک کا فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا۔ اسی طرح ایک اور ادارہ Motivation سے متعلق ہے۔ اس میں علما کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اس ادارے کا مقصد مسلم امہ کی ساکھ کو بہتر بنانا ہے۔ ادارہ ان عوامل کا پتہ بھی چلائے گا جو نوجوانوں کو خود کش بمبار بنارہے ہیں جبکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے دیگر طریقوں پر تجاویز دینا بھی موٹی ویشن محکمے کی ذمہ داری ہے۔ تیسرا ادارہ فوج کو ٹریننگ دینے کے حوالے سے ہے۔ ذرائع کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد کے ادارے تو بن چکے ہیں تاہم ان اداروں میں بھرتیوں کا کام باقی ہے اور اب یہ پروسس شروع ہونے جارہا ہے۔ اس سارے معاملے میں پاکستان کا کردار بڑا اہم ہے ۔ دورے پر آنے والے وفد کے ایجنڈے میں اس ایشو پر بات چیت کرنا بھی شامل ہے ۔
ذرائع کے مطابق کولیشن فوج بن جانے کے بعد اگر ارکان ممالک میں سے کسی کو بھی اتحادی فوج کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اسلامی اتحاد کو تحریری درخواست لکھ کر مدد حاصل کرسکے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی رکن ملک کہتا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے میں اس کی فوج کو ناکامی کا سامنا ہے اور اسے کولیشن آرمی کی ضرورت ہے تو اس کی درخواست کا جائزہ منسٹرز آف ڈیفنس کونسل لے گی اور یہ تعین کرے گی کہ کہیں مذکورہ ملک کا اپنا کوئی اندرونی اور سیاسی اختلاف تو نہیں یا واقعی اسے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے کولیشن فوج کی مدد درکار ہے۔ اگر یہ تعین کرلیا جاتا ہے کہ درخواست گزار ملک کو واقعی دہشت گردی سے ہی نمٹنا ہے تو پھر منسٹرز آف ڈیفنس کونسل اس بات کا جائزہ لے گی کہ مذکورہ ملک کو کتنی فوج کی ضرورت ہے؟ اور کتنی فوج بھیجی جانی چاہئے؟ اس پروسس کے بعد ہی متعلقہ ملک میں کولیشن فوج بھیجی جائے گی۔ تاہم اپنے طور پر کولیشن آرمی کسی رکن ملک میں نہیں جائے گی اس کے لئے ضروری ہوگا کہ متاثرہ ملک خود درخواست دے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ متاثرہ ملک اتحادی فوج کی ڈیمانڈ ہی کرے، وہ یہ درخواست بھی کرسکتا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اس کے فوجیوں کو ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ ایسے میں اسلامی فوجی اتحاد کا ٹریننگ کا ادارہ متعلقہ ملک کی مدد کرے گا اور وہاں ٹرینر بھیجے جائیں گے۔
اسلامی فوجی اتحاد کے وفد کی آج (منگل) یا بدھ کی صبح واپسی متوقع ہے ۔ پیر کے روز اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ جس وقت اس رپورٹ کو لکھا جارہا تھا اس وقت اسلامی فوجی اتحاد کا وفد پاکستان میں سعودی سفیر کے عشائیہ میں شریک تھا۔
ذرائع کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد کے دورہ پاکستان کے موقع پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مجوزہ دورہ اسلام آباد پر بھی بات چیت ہوئی کیونکہ اپنے دورے کے دوران سعودی ولی عہد اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق اہم امور بھی ڈسکس کریں گے۔ تاہم ذرائع کے بقول اسلامی فوجی اتحاد کے دورے کا مقصد صرف سعودی ولی عہد کا مجوزہ وزٹ نہیں ہے ۔ سعودی ولی عہد کے دورے سے قبل کے انتظامات الگ سے کئے جارہے ہیں، جس کے لئے محمد بن سلمان کی سیکورٹی اور ڈاکٹروں کی ٹیمیں پاکستان پہنچ چکی ہیں۔ سیکورٹی ٹیم کے ارکان نے اسلام آباد کے مختلف علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ محمد بن سلمان کے دورے کی کوریج کے لئے سعودی میڈیا کا وفد بھی پاکستان آچکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سعودی ولی عہد وزیراعظم ہائوس میں قیام کریں گے لہٰذا وزیراعظم ہائوس کی تزئین و آرائش کا کام جاری ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment