سرفروش

قسط نمبر 259
عباس ثاقب
سکھبیر نے میری زبان سے نکلنے والا ہر لفظ غور سے سنا اور پھر پُرسکون لہجے میں کہا۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بہت چالاک اور مکار ہو۔ لیکن تم میں ایک کمزوری ہے۔ تمہیں ضرورت سے زیادہ بولنے اور ہیرو بننے کا بہت شوق ہے۔ مجھے جگا کر اپنے کارنامے جتانے کے چکر میں تم نے بہت بڑی بے وقوفی کر دی ہے۔ چپ چاپ اپنے ساتھیوں کو بلاکر ہم سب کو سوتے میں قابو کر لیتے تو شاید تم لوگ واقعی کامیاب ہو جاتے!‘‘۔
میں نے اسے گھور کر دیکھا۔ ’’تمہارا مطلب ہے میں تمہیں پستول کی نوک پر یہاں سے نہیں لے جا سکتا؟ مجھے ایسا کرنے سے کون روکے گا؟ کان کھول کر سن لو۔ میں اپنے محکمے کا گولڈ میڈلسٹ نشانہ باز ہوں‘‘۔
میری بات سن کر وہ بے خوفی سے مسکرایا۔ ’’گولی نشانے پر لگے یا نہ لگے، اس کے دھماکے سے میرے ساتھی ضرور خبردار ہو جائیں گے۔ بس اتنا کافی ہے۔ پھر وہ خود ہی تم سے بدلہ لے لیں گے اور تمہارے ساتھی سرکاری کتوں میں سے بھی کوئی ہرمندر صاحب سے زندہ بچ کر باہر نہیں جا سکے گا۔ اور اگر تمہاری پہلی ہی گولی نے میرا کام تمام نہ کیا تو میں تمہیں دوسرا فائر کرنے کا موقع نہیں دوں گا اور تمہارا وہ حشر کروں گا کہ…‘‘۔
اتنا کہتے ہی وہ اچانک اچھلا اور چیتے کی سی پھرتی سے میری طرف جست لگائی۔ اگر میں پہلے سے چوکنا نہ ہوتا تو شاید مجھے گراکر میرا پستول چھین چکا ہوتا۔ لیکن اس کے جسم میں جنبش ہوتے ہی میں بجلی کی سی تیزی سے تین قدم پیچھے ہٹ چکا تھا۔ لہٰذا وہ اپنی ہی جھونک میں منہ کے بل کمرے کے فرش پر آن گرا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا، میں اس کی کمر پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور الٹا ہاتھ اس کے گلے میں ڈال کر اس کی گردن پوری قوت سے پیچھے کی طرف کھینچ لی اور پستول کی نال اس کی کنپٹی پر جمادی۔
سکھبیر کی ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ پڑتے ہی اس کے حلق سے درد ناک کراہ نکلی تھی۔ لیکن گلا دبا ہونے کی وجہ سے اس کے منہ سے بہت دھیمی سی آواز خارج ہو سکی۔ میں نے پستول کی نال کا دباؤ بڑھاتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ ’’اب سمجھ آیا کہ تمہیں مارنے کے لیے مجھے گولی چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے ایک جھٹکے سے تمہاری گردن اور کمر دونوں کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔ اور اگر تمہیں زندہ ساتھ لے جانا چاہوں تو بس تمہاری کنپٹی پر پستول سے چوٹ لگانی پڑے گی۔ پھر تم چپ چاپ کئی گھنٹوں کی نیند سو جاؤ گے اور ہمارے ہیڈ آفس کے لاک اپ میں ہی تمہاری آنکھ کھلے گی‘‘۔
اس نے زور آزمائی کی کوشش کی، لیکن درد کی شدت سے مجبور ہوکر ساکت ہو گیا۔ وہ اتنے خطرناک داؤ میں پھنسا ہوا تھا کہ زور آزمائی کا نتیجہ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ٹوٹنے کی صورت میں ہی برآمد ہو سکتا تھا۔ اس کے منہ سے نکلنے والی کھرکھراہٹ سے مجھے لگا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ میں نے اس کی گردن کے گرد بائیں بازو کا حلقہ کچھ ڈھیلا کر دیا۔ اس نے بھنچی بھنچی آواز میں کہا۔ ’’تم مجھے زندہ ساتھ نہیں لے جا سکتے۔ اپنی خیریت چاہتے ہو تو مجھے مار دو۔ ورنہ موقع ملتے ہی میں تمہیں ہلاک کر دوں گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں نے تمہیں بتایا ناں کہ مجھے تمہیں زندہ یہاں سے لے جانا ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری کھوپڑی تڑخاؤں تو تمہاری مرضی۔ لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ اس سے تمہارے دماغ کو ایسی چوٹ بھی لگ سکتی ہے کہ تم ہمیشہ کے لیے باؤلے ہوجاؤ!‘‘۔
اس نے یہ سنتے ہی ایک بار پھر پوری قوت سے کروٹ لے کر مجھے اپنی پیٹھ سے گرانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اس دوران اس کے حلق سے دبی دبی اذیت بھری کراہیں نکلتی رہیں۔ بالآخر اس نے شکست تسلیم کر کے مزاحمت ترک کر دی۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔
سکھبیر کا جسم ڈھیلا پڑتے ہی میں نے اس کی گردن چھوڑ دی اور کمر سے اتر کر اطمینان سے اپنی مسہری پر جا بیٹھا۔ اس صورتِ حال میں تبدیلی کا ادراک ہونے میں اس نے زیادہ دیر نہیں لگی۔ پہلے تو شاید اسے یقین ہی نہیں آیا۔ پھر بالآخر اس نے کروٹ لی اور چت لیٹ کر حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا ہوگا۔
وہ سوچ رہا ہوگا کہ اب اسے کیا ردِ عمل ظاہر کرنا چاہیے۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کرتا، میں مسہری سے اٹھا اور پستول بائیں ہاتھ میں تھام کر اپنا دایاں ہاتھ سہارے کے لیے اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے میرا ہاتھ تھامنے کے بجائے تذبذب کے عالم میں مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’اب یہ کیا ناٹک ہے؟‘‘۔
میں نے بدستور مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔ ’’بھائی تم اٹھو تو سہی۔ سب بتاتا ہوں‘‘۔ اس کے چہرے پر حیرت اور الجھن کے تاثرات مزید گہرے ہوگئے۔ بالآخر وہ ہمت کر کے بیٹھ گیا اور کچھ ہی دیر میں اٹھ کر اپنی مسہری پر جا بیٹھا۔ میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اب تو تمہیں یقین آجانا چاہیے کہ تم خوامخواہ مجھ پر شک کیے جا رہے ہو۔ میں سرکار کا ایجنٹ ہوں اور نہ ہی تمہارا دشمن۔ سچ یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح اپنی قوم کے دشمنوں کو مزا چکھانے کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر گھر سے نکلا ہوں‘‘۔
(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment